صوبائی کابینہ کا اجلاس،خود کفالت کے تحت قرضہ لیکر فوت ہونیوالوں کے قرضہ جات معاف ،پروفیشنل ٹیکس کی زیادہ حد کو5لاکھ روپے تک بڑھانے کی تجویز کی منظور،جونیئر کلرکس کی تعیناتی پبلک سروس کمیشن سے واپس لینے اور پبلک سروس کمیشن کے سربراہ کی گریڈ20کرنے کی منظوری دی

منگل 29 مارچ 2016 09:41

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 29مارچ۔2016ء)صوبائی کابینہ نے آئل اینڈ گیس پیدا کرنے والے اضلاع میں دس فیصد رائلٹی کا استعمال،بجٹ سٹریٹیجی پیپر برائے مالی سال 2016-17 ء،باچا خان خپل روزگار سکیم ،پختونخواہنر مند روزگار سکیم اور روایتی ہنر مند روزگار کو ملا کرخود کفالت کے تحت قرضہ لیکر فوت ہونیوالوں کے قرضہ جات معاف کرنے،پروفیشنل ٹیکس کی زیادہ حد کو5لاکھ روپے تک بڑھانے کی تجویز کی منظوری، جونیئر کلرکس کی تعیناتی پبلک سروس کمیشن سے واپس لینے اور پبلک سروس کمیشن کے سربراہ کی گریڈ20کرنے کی منظوری دی ہے ۔

پختونخوا کابینہ کا ایک اجلاس وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی زیر صدارت کیبنٹ روم سول سیکرٹریٹ پشاور میں منعقد ہوا۔اجلاس میں گلشن اقبال پارک لاہور کے بم دھماکے سے جاں بحق ہونے والے افراد کے ایصال ثواب کیلئے دعا کی گئی۔

(جاری ہے)

صوبائی کابینہ نے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد از جلد صحتیابی کیلئے دعا کی۔ اجلاس کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے صوبائی وزیر شاہ فرمان نے بتایا کہ بجٹ سٹریٹیجی پیپر ایک اہم دستاویز ہے جو عوامی امنگوں اور حکومتی پالیسیوں کا آئینہ دار ہوتا ہے اور جو آنے والے بجٹ کے خدوخال کا اجمالی خاکہ پیش کرتا ہے۔

بجٹ سائیکل کے شروع میں بجٹ سٹریٹیجی پیپر کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمام متعلقہ محکموں کو فنڈز پوزیشن سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی ترجیحات کے مطابق بجٹ تیار کرسکیں۔ اسی طرح (Limitation Act 1908)کی شق۔147اور148 کی تنسیخ کی گئی ۔انہوں نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ بنوں بنچ نے سال2012ء میں ایک رٹ پٹیش کے بارے میں اپنے ایک فیصلے میں (limitation Act 1908) کی شق۔147اور148 کو غیر آئینی قرار دے کرمحکمہ قانون کو اس سلسلے میں ضروری اقدامات کا حکم دیا جسے محکمہ قانون و پارلیمانی امور نے قانونی رائے کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا کہ آیا اس قانون کے یہ شق اسلامی قوانین سے متصادم ہیں یا نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی رائے میں مذکورہ شقوں کو اسلامی قوانین کے منافی قراردیا اور اس کی تنخیص کی سفارش کی۔ (ان دونوں شقوں کے رو سے اگر کوئی شخص اپنی زمین وغیرہ کسی کو رہن کرکے اسے قرضہ حاصل کرے اور اگر وہ شخص ساٹھ سال کی مدت میں وہ قرضہ واپس نہ کر سکے تو وہ انہی رہن شدہ زمین وغیرہ کی ملکیت کے حق سے محروم ہو جائے گا)۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش کی روشنی میں صوبائی محکمہ قانون و پارلیمانی امور نے ان دونوں شقوں کی تنسیخ کیلئے ترمیمی بل کابینہ کے سامے پیش کیا جس کی کابینہ نے منظوری دی۔ شاہ فرمان نے بتایا کہ صوبائی کابینہ نے14فروری 2012ء کو اپنے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا تھاکہ باچا خان خپل روزگار سکیم سے استفادہ کرنے والے وہ لوگ جو قرضہ لے کر بعد ازاں وفات پا گئے کے ذمہ واجب الادا قرضے کی اقساط معاف کر دی جائینگی لیکن بعد ازاں محکمہ قانون نے ایک قانونی سقم کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ4نومبر2013ء کو حکومت نے باچا خان خپل روزگار سکیم،پختونخواہنر مند روزگار سکیم اور روایتی ہنر مند روزگار کو ملا کرخود کفالت کے نام پر ایک سکیم بنا دیا تھا اسلئے کابینہ نے وفات پانے والے مستفید افراد کیلئے بقایا اقساط معاف کرنے کی منظوری دی۔

تاہم کابینہ نے ہدایت کی کہ اس سکیم کی مکمل تفصیلات محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کو فراہم کرے۔کابینہ کو بتایا گیا کہ اس لسٹ میں صرف 2افراد شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا فنانس ایکٹ1990ء کی شق۔7 کے مطابق پروفیشنل ٹیکس ان لوگوں پر نافذ کیا جاتا ہے جو مختلف پیشوں اور تجارت سے منسلک ہوں۔آئین پاکستان کی شق۔163 کے تحت قومی اسمبلی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ پروفیشنل ٹیکس کی زیادہ حد مقرر کرے۔

قومی اسمبلی نے1999ء میں آخری بار ٹیکس کی حد50ہزار روپے سے بڑھا کر1لاکھ روپے کر دی تھی۔ اس طرح گزشتہ 15سالوں میں اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔حال ہی میں محکمہ ایکسائز ،ٹیکسیشن اور نارکاٹکس کنٹرول حکومت سندھ نے بین الصوبائی کوآرڈینیشن کمیٹی کے ایک اجلاس میں پروفیشنل ٹیکس کی زیادہ حد کو5لاکھ روپے تک بڑھانے کی تجویز پیش کی تو خیبر پختونخوا حکومت نے بھی تجویز کی حمایت کی تاکہ صوبے کے ریونیو میں مناسب اضافہ ہو سکے۔

اس لئےIPCC نے فیصلہ کیاکہ چونکہ پروفیشنل ٹیکس صوبوں سے تعلق رکھتا ہے اس لئے تمام صوبے فنانس ڈویژن کے وساطت سے کابینہ سے ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ حد5لاکھ روپے تک بڑھانے کی منظوری حاصل کریں ۔لہذا صوبائی کابینہ نے پہلے مرحلے میں اس کی منظوری دی۔قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اس کی منظوری صوبائی اسمبلی سے بھی لی جائیگی۔اس کی منظوری کے بعد ہی صوبائی حکومت مقامی سطح پر پروفیشنل ٹیکس میں اضافے کا فیصلہ کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ سال 2007-08ء میں صوبائی حکومت نے بجٹ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ تیل و گیس پر وفاقی حکومت سے وصول ہونے والی رائلٹی کی رقم ان اضلاع میں خرچ کی جائے گی جہاں تجارتی بنیادوں پر یہ پیدا ہوتی ہے۔حال ہی میں وزیر اعلی کے مشیر برائے جیل خانہ جات ملک قاسم خٹک نے اس ضمن میں بنائی گئی پالیسی میں تبدیلی کی درخواست کی جس پر صوبائی حکومت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جس میں سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری انرجی ممبران تھے۔

#ٹاسک فور س پالیسی میں بہتری کے لئے متعلقہ ممبر صوبائی اسمبلی اور ڈپٹی کمشنرز سے مشورہ کریگی ۔ ٹاسک فورس کی سفارشات کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔۱)۔پہلے پرانی پالیسی کے تحت چھوٹے سکیم کی مالیت دس لاکھ روپے تھے جو اب پندرہ لاکھ کر دی گئی ہے۔۲)۔پہلے رائلٹی کی رقم بجلی گیس سپلائی ‘ٹیکنیکل ایجوکیشن ‘ پانی کی فراہمی و سڑکوں کی تعمیر ‘ صحت سہولیات ‘ چھوٹے ڈیموں کی تعمیر اور ہائیرایجوکیشن کے اداروں کے لئے زمین کی فراہمی پر خرچ کی جاتی تھی اب اس میں شمسی توانائی کے سٹریٹ لائٹس اورکھیلوں کی سہولیات بھی شامل کی گئی ہیں۔

نئی پالیسی کے تحت رقم کا پچاس فیصد تیل و گیس پیدا کرنے والے تحصیلوں میں استعمال ہوگا جبکہ بقایا پچاس فیصد ضلع کے دیگر تحصیلں میں استعمال ہوگا۔۳)۔اس رقم سے مکمل کی جانے والی سکیموں کی نگرانی کرنے والی کمیٹی جس کے سربراہ ڈپٹی کمشنر اور ممبران میں متعلقہ ممبران صوبائی اسمبلی شامل تھے اب ضلع و تحصیل ناظمین ‘ اسسٹنٹ کمشنر ضلعی پلاننگ اور ریونیو افسران بھی بطور ممبران شامل ہوں گے۔

کابینہ نے اصولی طور پر ان سفارشات کی منظوری دی۔صوبائی کابینہ نے 19مارچ2015ء کو ہونے والے اجلاس میں سینئر وزیر برائے بلدیات کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی جو بھرتی کے عمل کا کمیشن کے ساتھ ملکر جائزہ لے گی اور کمیشن کو استحکام دینے کیلئے سفارشات پیش کرے گی۔کمیٹی کے ممبران میں صوبائی وزراء شہرام ترکئی، مظفر سید، محمد عاطف، مشتاق احمد غنی کے علاوہ سیکرٹری اسٹبلشمنٹ بھی شامل تھے۔

کابینہ نے کمیٹی کی سفارشات پر غور و خوص کے بعد اس کی منظوری دی۔ جونیئر کلرک کی آسامی جو پہلے پبلک سروس کمیشن کی عملداری میں شامل نہیں تھے لیکن اس کوگریڈ۔7سے اپ گریڈ کرکے11میں کرنے سے پبلک سروس کمیشن کے حلقہ میں چلی گئی تھی کودوبارہ واپس لینے کی سفارش کی گئی ہے جس کے لئے خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن آرڈیننس1978ء میں ترمیم کی جائیگی اسی طرح چیئرمین پبلک سروس کمیشن کی تعیناتی کیلئے2اکتوبر2011ء کو قائم کردہ سرچ کمیٹی جس کے سربراہ چیف سیکرٹری اور ممبران میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری پی اینڈ ڈی، وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی شامل ہیں کو برقرار رکھا جائیگا اور ممبران کی تعیناتی بھی ہی کمیٹی کرے گی۔

تاہم چیئرمین پبلک سروس کمیشن بھی ممبران کی سلیکشن میں شامل ہوگا پبلک سروس کمیشن کے سیکرٹری کے عہدے کوگریڈ۔20 کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور اس کے ساتھ گریڈ۔19میں دو پوسٹوں کو ڈائریکٹر ریسرچ اور ڈائریکٹر آئی ٹی کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔تاہم کابینہ نے کہا کہ ڈائریکٹر آئی ٹی کیلئے گریڈکی بجائے پیکج دیا جائے وائس چانسلرز اور ہیلتھ انسٹی ٹیوشنز کے سربراہوں کی تعیناتی بھی سرچ کمیٹی کے ذریعے کی جائے کمیٹی نے ممبران کیلئے اعزازیہ کی رقم بھی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبران کیلئے مختص اعزازیہ کے برابر کرنے کی سفارش کی ہے پبلک سروس کمیشن نان سیلبس پوسٹوں کیلئے تعیناتی کا عمل 6سے8ماہ جبکہ سیلبس پوسٹوں کیلئے یہ عمل ایک سال میں مکمل کیا جائیگا۔

صوبائی کابینہ نے گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ1996ء میں ترامیم کی منظوری دیدی۔ ترامیم کا مقصد اتھارٹی کو خود مختار بنانا، گلیات کی ترقی اور پرائیویٹ سیکٹر کو گلیات کی ترقی میں شامل ہونے کا موقع دینا ہے۔اتھارٹی کا صدر دفتر ایبٹ آباد میں ہوگا جبکہ دفتری امور کیلئے گلیات کے مختلف مقامات پر دفاتر قائم کیے جائیں گے۔اتھارٹی 11اراکین پر مشتمل ہوگی جن میں سے7اراکین نجی شعبے سے جبکہ4حکومت کی نمائندگی کریں گے۔

اتھارٹی کا چیئرمین نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے اراکین میں سے ہوگا جس کو ووٹنگ کے ذریعے تین سال کیلئے منتخب کیا جائیگا۔پرائیویٹ سیکٹر سے آنے والے کسی بھی رکن کے مستعفی ہونے کی صورت میں خالی آسامی کو ایک ماہ کے اندر اندر پرُ کیا جائیگا۔ کسی بھی پرائیویٹ رکن کو کوئی تنخواہ نہیں دی جائیگی جبکہ اتھارٹی کا رکن بننے کیلئے اچھے شہری اور ماحولیات، جنگلات، کمیونٹی ڈولپمنٹ، بزنس، سیاحت و آثار قدیمہ سے متعلق تجربہ ضروری ہوگا۔

متعلقہ عنوان :