کراچی بدامنی کیس ۔ سپریم کو رٹ کا پولیس رپورٹ عدم اعتماد کااظہار،چیف سیکریٹری کی سر زنش ، اگرآپ لوگوں سے کام نہیں ہوتاتوگھرچلے جائیں، سپریم کو رٹ،پولیس کی ناقص تفتیش سے نقصان ہواہے، 6 ہزار ملزمان پکڑ کر دیے لیکن ناقص تفتیش کے باعث سب چھوٹ گئے،رینجرز،پولیس کو سیاست سے پاک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ چیف سیکریٹری بتائیں اہم کیسزمیں پراسیکیوٹرتعینات کیوں نہیں کرتے، عدا لتی ریما رکس ، اگر4ہزاراشتہاری بھی دندناتے پھریں گے تو شہرکاکیاحال ہوگا،چیف جسٹس،کیس کی سماعت آ ج دو با رہ ہو گی

منگل 8 مارچ 2016 10:21

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 8مارچ۔2016ء) چیف جسٹس آف پاکستان نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران پولیس رپورٹ عدم اعتماد کااظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کی اپنی رپوٹوں میں تضاد ہے پولیس صحیح تفتیش نہیں کرتی گواہوں کوتحفظ فراہم نہیں کیاجاتا نہ ہی عدالتوں میں ثبوت فراہم کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملزمان بری ہوجاتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں5رکنی بینچ نے کی۔

بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس خلجی عارف حسین پرمشتمل بینچ نے کراچی امن وامان پرعمل درآمد کیس کی سماعت کی ۔سماعت کے دوران رینجرز نے اپنی رپورٹ پیش کی۔رینجرزکی جانب سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی ناقص تفتیش سے نقصان ہواہے، 6 ہزار ملزمان پکڑ کر دیے لیکن ناقص تفتیش کے باعث سب چھوٹ گئے۔

(جاری ہے)

کئی بارحکومت کوپولیس کوغیرسیاسی کرنیکاکہا۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ رینجرز نے 6 ہزار ملزمان پکڑ کر دیے تو اس کا کریڈٹ پولیس کیوں لے رہی ہے،2011میں11سوملزمان پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث رہا ہوئے، پولیس کو سیاست سے پاک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ چیف سیکریٹری بتائیں اہم کیسزمیں پراسیکیوٹرتعینات کیوں نہیں کرتے،عدالت نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اگرآپ لوگوں سے کام نہیں ہوتاتوگھرچلے جائیں۔

روزروزپولیس افسران کے تبادلوں سے بھی آپریشن متاثرہوتاہے۔آج سماعت میں چیف سیکریٹری،سیکریٹری داخلہ،آئی جی سندھ اوررینجرزو وکلاء موجود تھے۔ایڈووکیٹ جنرل نیعدالت میں پولیس کی جانب سے رپورٹ پیش کی۔آئی جی سندھ غلام حیدرجمالی نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں امن وامان کی صورتحال بہت بہترہوئی ہے۔ اس پرچیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ صرف اعدادوشمارنہیں چاہیئں۔

یہ بتائیں کہ کتنے ملزمان کے چالان پیش ہوئے اور کتنوں کیخلاف مقدمہ چل رہاہے۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ کے مطابق 159 افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی توکون سامجرم پکڑاگیا، پولیس کی رپورٹ درست مان لیں تو سمجھیں شہرمیں امن ہوگیا۔چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے ریمارکس دیے کہ آئی جی سندھ شہر میں جس امن کادعویٰ کررہیہیں وہ رینجرزکی وجہ سے ہے۔

آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ کراچی آپریشن ٹیم ورک کانتیجہ ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں پولیس نے کتنیمقدمات حل کیے؟ایسابھی ہوا کہ مقدمہ درج ہونیکے4دن بعدملزم کو ایکلاس دے دی گئی۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ شہرمیں شارٹ ٹرم کڈ نیپنگ بہت بڑھ گئی ہے کیا آپ کو پتا ہے یہ کیا ہے؟ ایس پی عامرفاروقی نیاس معاملیپرتحقیقات کی، اس کا کیا ہوا؟آئی جی سندھ نے جواب میں کہا کہ یہ میرے علم میں نہیں۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ اگراتنابھی معلوم نہیں تو پھر آپ کووردی میں رہنے کاحق نہیں۔ پولیس افسران نے خود رپورٹ دی ہے کہ پولیس کے بھی ملوث ہونیکاانکشاف ہواہے۔آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں اشتہاری ملزمان کی تعداد11ہزار584 ہے جبکہ 37ہزارافرادمفرورہیں۔ پولیس نے 451اشتہاری ملزمان کوپکڑلیاہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر4ہزاراشتہاری بھی دندناتے پھریں گے تو شہرکاکیاحال ہوگا۔

آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے آصف چھوٹواورنعیم بخاری جیسے مجرموں کوپکڑاہے۔ شہرمیں اب بم دھماکے ہوتے ہیں، نوگو ایریا ختم کیے اور پولیو ٹیموں کو بھی سیکیورٹی دی۔ پولیس نے بہت کام کیاہے،ائرپورٹ حملہ،صفوراگوٹھ،ڈیبرالوبو کیس کیملزمان پکڑے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2 ہزارمجرم آزاد گھوم رہیہیں،یہ کوئی کارکردگی نہیں۔

پولیس خود صحیح تفتیش نہیں کرتی اور الزام عدالتوں پر ڈالا جاتا ہے۔ اگر گواہ پیش نہیں کریں گے توکیاملزم کوپھانسی پرچڑھادیں۔ ہمیں وہ چیزیں نہ بتائیں جن کا علم ہمیں پہلے سے ہے۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ پولیس کی رپورٹ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ یہ بتائیں کہ مفرور ملزمان کو کیوں نہیں پکڑا؟۔ ملزمان کے نام اور پتے موجود ہیں پھر بھی پولیس ہاتھ نہیں ڈالتی۔

چیف جسٹس کی جانب سے پے رول پر رہا ملزمان سے متعلق استفسار پر پراسیکیوٹر جنرل نے جواب دیا کہ 70میں سے54کیسزنمٹادییگئے ہیں۔ اکثرکیسزمیں ملزمان بری ہوگئے جبکہ 18ملزمان کوگرفتارکرکے جیل بھیج دیاگیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 2015میں کتنے مقدمات کاچالان پیش کیا گیا اور کتنے مقدمات کوانجام تک پہنچایاگیا، جواب میں پراسیکیوٹر جنرل نے رپورٹ پیش کرنے کیلئے کل تک کی مہلت طلب کر لی۔سپریم کورٹ نے کراچی امن و امان عملدرآمد کیس کی سماعت منگل کے روزتک ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :