سینیٹ ، اپوزیشن کی وزیراعظم صحت پروگرام پر کڑی تنقید ، وزیراعظم کا پروگرام فوٹو سیشن تک محدود، صحت کا شعبہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے،اپوزیشن سینیٹرز ،سر کاری ہسپتالوں میں مریض ذلیل و خوار ہورہے ہیں ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے، وزیراعظم کو صحت پروگرام پسماندہ علاقوں میں شروع کرنا چاہیے تھا،سینیٹر نہال ہاشمی کی تحریک پر طاہر مشہدی ،سحر کامران ،شبلی فراز، سیف خان اور دیگر کا اظہار خیال ، دیہاتوں میں صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ، وزیراعظم نے نیک نیتی سے پروگرام کو شروع کیا ہے، تمام اداروں کو مل کر کامیابی کی طرف لے جانا چاہیے، شیخ آفتاب

منگل 1 مارچ 2016 01:19

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 1مارچ۔2016ء) سینیٹ میں اپوزیشن ممبران نے وزیراعظم کے صحت پروگرام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کا پروگرام فوٹو سیشن تک محدود ہے۔ صحت کا شعبہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے،سر کاری ہسپتالوں میں مریض ذلیل و خوار ہورہے ہیں ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے، وزیراعظم کو صحت پروگرام پسماندہ علاقوں میں شروع کرنا چاہیے تھا۔

پیر کو ایوان بالا کے اجلاس کے موقع پر سینیٹر نہال ہاشمی نے وزیراعظم کے صحت پروگرام اور اس سے ملک کے عام آدمی پر مرتب ہونے والے اثرات پر تحریک پیش کی۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے۔ نہال ہاشمی نے کہا کہ ہر معاشرہ میں صحت سے متعلق سب سے زیادہ بات چیت ہوتی ہے 18 ویں ترمیم کے بعد صحت صوبائی معاملہ ہے وزیراعظم نے صحت سے متعلق معاملات کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نے پاکستان کے لئے ہیلتھ پالیسی مرتب کی ہے جس سے عام پاکستانی مستفید ہوں گے اس پالیسی سے 31 لاکھ لوگ مستفید ہوں گے انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کی از حد ضرورت تھی کیونکہ ہمارے ہسپتالوں میں صہت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے اس اسکیم کے تحت تین لاکھ روپے دیئے جائیں گے 23 اضلاع کے غریب لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں پاکستان میں مزدوروں‘ کسانوں و دیگر عام افراد پرائیویٹ ہسپتالوں میں صحت کا علاج نہیں کروا سکتے ان کو اس اسکیم سے علاج کی سہولیات متعارف کروانے میں مدد ملے گی۔

سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ پاسکتان میں صحت کے حوالے سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈاکٹروں کو مارا اور نرسوں کو واٹر کینن پھینکا جارہا ہے۔ جمہوریت میں صحت اور تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے جو موجودہ حکومت نہیں کررہی ان کی کارروائی فوٹو سیشن تک محدود نہیں ہے۔ 31 لاکھ میں سے کتنوں کا علاج ہوا ہے کتنوں کو ڈنڈے مار کر باہر نکالا گیا ہے۔

صحت مذہبی و آئینی فرض ہے۔ وزیراعظم کے صحت پرعوگرام پر عملدرآمد نہیں ہورہا صرف زبانی دعوے کیے جارہے ہیں ۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ کیا واقعی صحت حکومت کی ترجیح میں شامل ہے۔ ہسپتالوں کو بجٹ ‘ ٹیسٹنگ مشین و دیگر چیزیں نہیں ملیں گی تو لوگوں کو سہولیات کیسے ملیں گی۔ حکومت کی ترجیحات میں صحت کے حوالے سے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ سینیٹر عتیق نے کہا کہ ملک میں ادویات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ کردیا گیا ہے کوئی ادویات ساز کمپنیوں کو پوچھنے والا نہیں ہے عوام ہسپتالوں میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں غریب کا کوئی پرسان ہال نہیں ہے۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ہمارے ملک میں نئے ادارے ادارے بنانے کاشوق ہے کسی بھی قوم کی خاصیت ان کی ترجیحات ہوتی ہیں جن لوگوں کے پاس کارڈ نہیں ہیں ان کا کیا بنے گا۔ سرکاری ہسپتالوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے سرکاری ہسپتالوں میں کیا سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، ترجیحات کا تعین کرنے کی ضرورت ہے صحت کے ہوالے سے سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔

سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ وزیراعظم کا اچھا پروگرام ہے عوام کو صحت کی سہولیات ملنی چاہئیں ۔ حکومت کو پسماندہ علاقوں میں سہولیات فراہم کرنی چاہئیں۔ سینیٹر سیف خان نے کہا کہ غریب عوام کو علاج کی سہولیات فراہم کرنا ابھی بات ہے اس پروگرام سے عوام کو حکومت پر انحصار کرنا پڑے گا۔ صحت کے شعبہ میں کام کرنے والوں کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

آزاد کشمیر میں غریبوں میں کارڈ تقسیم کرنے پر جتنے روپے لگائے ان سے اگر پمز میں دو ایم آر آئی مشینیں لگائی جاتیں تو بہتر ہوتا۔ وزیر مملکت پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ دیہاتوں میں صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں شہری علاقوں میں مریض زیادہ ہیں لوگوں کو طویل انتظار کرنا پڑتا ہے وزیراعظم نے نیک نیتی سے اس پروگرام کو شروع کیا ہے معاشرے میں مثبت اور منفی طاقتیں اکٹھے کام کررہی ہیں انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کو مل کر کامیابی کی طرف لے جانا چاہیے۔