شام میں عملی طور پر ایک ہفتے میں جنگ بندی مشکل ہے، بشار الاسد،جنگ بندی کا مطلب دہشت گردوں کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے سے روکنا ہونا چاہیے ،عالمی طاقتوں کی جانب سے کارروائیاں روکنے کے منصوبے مشکوک ہیں ،شامی صدر

بدھ 17 فروری 2016 08:47

دمشق(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 17فروری۔2016ء)بشار الاسد نے کہا ہے کہ عملی طور پر ایک ہفتے میں جنگ بندی مشکل ہے، جنگ بندی کا مطلب دہشت گردوں کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے سے روکنا ہونا چاہیے،عالمی طاقتوں کی جانب سے جنگی اقدامات اور کارروائیاں روکنے کے منصوبے مشکوک ہیں ، منصوبوں پر عملدرآمد عالمی برادری کیلئے مشکل ہوگا ۔غیر ملکی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شامی صدر بشار الاسد نے عالمی طاقتوں کی جانب سے شام میں جنگی اقدامات اور کارروائیاں روکنے کے منصوبوں پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جنگ بندی کا مطلب دہشت گردوں کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے سے روکنا ہونا چاہیے۔شامی صدر بشار الاسد نے کہا کہ اس قسم کی جنگ بندی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام گروہ ہتھیار ڈال دیں گے۔

(جاری ہے)

بشار الاسد کا کہنا تھا کہ ’اب تک تو ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر جنگ بندی چاہتے ہیں۔ لیکن ایک ہفتے کے اندر کون تمام مطالبات اور شرائط کو جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

بشار الاسد کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے ساتھ کون بات کرے گا؟ اگر دہشت گرد جنگ بندی کو مسترد کر دیتے ہیں تو انھیں کون روکے گا؟ عملی طور پر یہ مشکل ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ بندی کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہر کوئی ہتھیاروں کا استعمال روک دے۔ اس کا مطلب دہشت گردوں کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے سے روکنا ہونا چاہیے۔ ہتھیاروں، آلات، اور شدت پسندوں کی ترسیل یا پوزیشن مستحکم کرنے کی ممانعت ضروری ہے۔

بشار الاسد نے جنگ بندی کے اس منصوبے کے اعلان کے بعد کہا تھا کہ شام میں باغیوں کو شکست دینے میں کچھ وقت لگے گا کیونکہ انھیں بیرونی مدد حاصل ہے لیکن وہ پورے ملک پر اپنا کنٹرول بحال کر کے رہیں گے۔صدر اسد نے کہا کہ وہ شام میں امن بحال کرنے کے لیے عالمی سطح پر کی جانے والی کوششوں کے باوجود وہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شمالی شام میں سلسلہ وار حملوں سے جنگ بندی کے امکانات پر ’گہرے سائے‘ چھا گئے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس خطے میں سکولوں اور ہسپتالوں پر میزائلوں کے حملوں میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔فرانس کا کہنا ہے وہ سخت الفاظ میں ایم ایس ایف کے کلینک پر بمباری کی مذمت کرتا ہے جبکہ فرانسیسی وزیرِ خارجہ ڑاں مارک ایرالٹ نے کہا ہے کہ ایسے حملے ’جنگی جرائم ہیں۔ترکی کی وزارتِ خارجہ نے روس کو ان حملوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے جبکہ روس کی جانب سے تاحال اس الزام کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

شام کے تنازع کی وجہ سے ترکی اور روس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ روس شام میں باغیوں کے خلاف شامی حکومت کی عسکری کارروائی کی حمایت کر رہا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ وہ صرف ان عناصر کو نشانہ بنا رہا ہے جو ’دہشت گرد ہیں۔‘دریں اثنا شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والے گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ کرد ملیشیا نے شمالی شام میں تل رفعت نامی قصبے سے باغیوں کا قبضہ ختم کروا دیا ہے۔

وائی پی جی سے تعلق رکھنے والے کرد فوجیوں نے یہ کامیابی اپنی پوزیشنوں پر ترکی کی جانب سیگذشتہ تین دن سے جاری گولہ باری کے باوجود حاصل کی۔ترکی اس ملیشیا کو اپنے ملک میں سرگرم کالعدم کرد جماعت پی کے کے کا ساتھی سمجھتا ہے۔ترک وزیرِ اعظم احمد داوٴد اوغلو نے خبردار کیا ہے کہ اگر کرد ملیشیا نے تل رفعت کے بعد ترک سرحد کے ساتھ واقع شامی علاقے اعزاز پر قبضے کی کوشش کی تو انھیں ’سخت ترین ردعمل‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

متعلقہ عنوان :