میاں محمودالرشید نے پنجاب میں پانی پر وائٹ پیپر جاری کردیا ،لاہور، اسلام آباد سمیت پورے پنجاب میں لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، گندہ پانی پینے سے ہلاکتوں کی سالانہ شرح11لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے لیکن حکومت کی اس پر کوئی توجہ نہیں،شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی ریاست کی ذمہ د اری ہے ، آئندہ ہلاکت پر حکمرانوں پر مقدمہ درج کرائیں گے،اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی

پیر 15 فروری 2016 09:38

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 15فروری۔2016ء) پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید نے کہا کہ لاہور، اسلام آباد سمیت پورے پنجاب میں لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور گندہ پانی پینے سے ہلاکتوں کی سالانہ شرح11لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے لیکن حکومت کی اس پر کوئی توجہ نہیں، انہوں نے کہا کہ شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی ریاست کی ذمہ د اری ہے ، آئندہ ہلاکت پر حکمرانوں پر مقدمہ درج کرائیں گے۔

پانی پر وائٹ پیپر جاری کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے بجٹ2015-16میں پینے کے صاف پانی کے مختلف منصوبوں پر 3سالہ سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا لیکن6ماہ بعد بھی اس پر کام کا آغاز نہ ہو سکا، یہاں تک کے 2002میں بھی مختلف مقامات پر200فلٹریشن پلانٹ لگانے کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا جو آج تک مکمل نہیں ہو سکا انہوں نے کہا کہ اڑھائی لاکھ بچوں سمیت11لاکھ افراد گندہ پانی پینے سے ہلاک ہو رہے ہیں لیکن حکومت کی اس نازک مسئلے پر کوئی توجہ نہیں۔

(جاری ہے)

میاں محمودالرشید نے کہا کہ لاہور میں پینے کے پانی میں انسانی فضلے کی موجودگی کا انکشاف بھی ہوا ہے، حکومتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کاہنہ کے مقام پرانسانی فضلے کی مقدار100ملی لیٹر میں 38جبکہ گجومتہ میں15پوائنٹ ہے جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پانی میں انسانی فضلے کی مقدار صفر ہونی چاہئے۔میاں محمودالرشید نے کہا کہ پنجاب کے مختلف شہر مثلا لاہور، اسلام آباد، بہاولپور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، قصور، گجرات، ملتان، لیہ، سرگودہا، سیالکوٹ سمیت دیگر شہروں سے پانی کے سمپل اکٹھے کرکے انکے ٹیسٹ کرائے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ان شہروں کا پانی پینے کے قابل نہیں ان میں آرسینک کی وسیع مقدار پائی گئی۔ حکومت کی غفلت کے باعث لاہور میں24،اسلام آباد75،اٹک28،بہاولپور50،فیصل آباد، گوجوانوالہ میں 68، گجرات، قصور میں78،ملتان48،سرگودہا77شیخوپورہ میں44 اورسیالکوٹ میں5فیصد لوگ نہ صرف گندہ اور آرسینک ملا زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ ناقص حکومتی حکمت عملی کے باعث دریائے راوی کو مرکزی نالے کا درجہ دیدیا گیا ہے، سارے شہر کا انڈسٹریل ویسٹ اور سیوریج کا پانی راوی میں ڈالا جا رہا ہے، شہر میں دستیاب سبزیاں بھی اسی کے پانی سے اگائی جا رہی ہیں۔

حکومت نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صاف پانی کے منصوبوں پر کام شروع نہ کیا اور لوگوں کو مضر صحت پانی پینے پر مجبور کر دیا۔ گندہ پانی پینے سے پنجاب میں ہیپاٹائٹس، ہیضہ اور پیٹ کی مختلف بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں لیکن حکمران بدلا ہے پنجاب کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے پر مختص فنڈز میں اضافہ، یونین کونسل کی سطح پر فلٹریشن پلانٹ نصب اور نئے ٹیوب ویل بنائے جائیں اور انکی باقاعدہ مرمت اور کلورنیشن کرائی جائے ، اپوزیشن لیڈر نے گندے پانی کا معاملہ اسمبلی میں بھی اٹھانے کا اعلان کیا