پاکستانی ڈراموں کی شمع بجھ گئی ، معروف ادیبہ اور ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال کرگئیں، نماز جنازہ اور تدفین آج ہوگی ،صدر ، وزیراعظم اور سیاسی رہنماؤں کا گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار

جمعرات 11 فروری 2016 09:56

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 11فروری۔2016ء) پاکستان کے ڈراموں کی شمع بجھ گئی ، معروف ادیبہ اور ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال کرگئیں ان کی نماز جنازہ اور تدفین آج جمعرات کو ہوگی ۔ صدر مملکت ممنون حسین ، وزیراعظم نواز شریف اور سیاسی رہنماؤں نے ان کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ۔ تفصیلات کے مطابق معروف ادیبہ اور ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا طویل علالت کے بعد بدھ کے روز کراچی میں انتقال کرگئیں فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبر 1930ء کو بھارتی ریاست حیدر آباد دکن کے ضلع کرناٹک میں پیدا ہوئیں اور تقسیم ہند کے فوراً بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئیں فاطمہ ثریا بجیا کا ادبی دنیا سماجی اور فلاحی کاموں میں ایک نام تھا انہوں نے کئی ڈرامے لکھے اور ٹیلی ویژن ریڈیو اور سٹیج پر کام کیا ان کا پہلا ڈرامہ شمع بہت مشہور ہوا فاطمہ ثریا بجیا کو 1997ء میں تمغہ حسن کارکردگی ،2012ء میں ہلال امتیاز اور مختلف اوقات میں دیگر کئی انعامات سے نوازا گیا ان میں جاپان کا اعلیٰ سول ایوارڈ بھی شامل ہے معروف اداکار انور مقصود ، احمد مقصود ان کے بھائی ہیں سارہ نقوی بھی ان کے خاندان سے ہیں فاطمہ ثریا بیجا کچھ عرصہ سے علیل تھیں اور بہت کمزور اور حواس کھو بیٹھی تھیں ان کی نماز جنازہ جمعرات کے روز کراچی میں ادا کی جائے گی جہاں پر آبائی قبرستان میں ان کی تدفین ہوگی فاطمہ ثریا بجیا کے انتقال پر صدر مملکت اور وزیراعظم نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور ان کی خدمات کو سراہا وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ، گورنر اور وزرائے اعلیٰ وفاقی وزراء سیاسی رہنماؤں اداکاروں ، فنکاروں اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھے والے لوگوں نے ان کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کااظہار کیا ہے ۔

(جاری ہے)

فاطمہ ثریا بجیا کے مشہور ڈراموں میں سسی پنوں ، افشاں ، عروسہ ، تصویر ، شمع ، آبگینے ،بابر ، سرسوں ، تصویر کائنات زینت اور کئی دوسرے ڈرامے شامل ہیں ۔یکم ستمبر 1930 کو ضلع کرناٹک میں پیدا ہونے والی فاطمہ ثریا بجیا مقبول ترین ڈرامہ رائٹر تھیں، ان کے لکھے گھریلو ڈرامے ہر دور میں سب کی پسند رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ان کی ٹیلی وڑن کی دنیا میں آمد محض اتفاقا ہوئی تھی جب1966 میں کراچی جانے کے لیے ان کی فلائٹ تعطل کا شکار ہوئی تو وہ اسلام آباد پی ٹی وی سینٹر کسی کام سے گئیں وہاں اسٹیشن ڈائریکٹر آغا ناصر نے ان سے اداکاری کے ذریعے پہلا کام کروایا اس کے بعد انہوں نے ڈرامہ نگاری کے ذریعے اس ادارے سے اپنا تعلق مضبوط کیا۔

ان کے بیشتر ڈرامے جیسے شمع، افشاں، عروسہ اور انا بہت بڑی کاسٹ اور بڑے خاندانوں کے مسائل کی بہترین عکاسی کرتے رہے ہیں جبکہ انارکلی، زینت، آگہی، بابر اور سسی پنوں ان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے چند نام ہیں۔1997 میں ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا اس کے علاوہ انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں جاپان کا اعلی سول ایوارڈ بھی شامل ہے۔

2012 میں ان کو صدر پاکستان کی طرف سے ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔انہوں نے سندھ حکومت کی مشیر برائے تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں جبکہ ان کے خاندان میں اور بھی مشہور شخصیات ادبی دنیا میں مصروف عمل ہیں جیسے کہ بھائیوں میں احمد مقصود اور انور مقصود بہنوں میں سارہ نقوی، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :