سویڈن میں مہاجر کے ہاتھوں لڑکی کے قتل کے بعد کشیدگی میں اضافہ

جمعرات 4 فروری 2016 08:46

پیرس( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4فروری۔2016ء)سویڈن میں مہاجر کے ہاتھوں لڑکی کے قتل کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔تفصیلات کے مطابق سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں گزشتہ جمعے کی شب تقریباً پچاس سے ایک سو کے درمیان افراد نے چہروں پر ماسک پہن کر بظاہر غیر ملکی دکھنے والے افراد کو مارا پیٹا اور پرچے تقسیم کییجن پر لکھا ہوا تھا، شمالی افریقہ میں سڑکوں پر رہنے والے بچوں کے لیے ایسی سزا جس کے وہ حقدار ہیں۔

یہ واقعہ شہر کے مرکزی علاقے سرگلز ٹورگ پلازہ پر پیش آیا۔ان ”نسل پرست“حملوں کی ویڈیوز پر بہت سے مقامی شہری حیرت زدہ رہ گئے۔ چند دیگر یورپی ریاستوں کی طرح سویڈن کو بھی ریکارڈ تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد کے سبب ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔ مقامی افراد میں ایک طرف تو انسانی ہمدردی کا جذبہ اور مستحق پناہ گزینوں کی مدد کی خواہش پائی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب یہ احساس بھی موجود ہے کہ ملک کا بنیادی ڈھانچہ فی کس آمدنی کے لحاظ سے یورپی یونین میں کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے کے قابل بھی رہ سکے گا۔

(جاری ہے)

عنوان تلے رپورٹ میں متعدد مسائل کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں مہاجر کیمپوں کو نذر آتش کیے جانے کے واقعات کے علاوہ معاشرتی اور مذہبی کشیدگی کے واقعات شامل ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ نے زیادہ تر مسائل کا ذمہ دار سوشل ڈیموکریٹ وزیر اعظم اسٹیفان لووین کو قرار دیا ہے۔ میڈیا کے مطابق حکومت نے پناہ گزینوں سے منسلک مسائل کو کم کر کے بیان کیا ہے۔

26جنوری کے روز چھپنے والے ایک ایڈیٹوریل میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ جرائم میں ملوث پناہ گزینوں کو ملک بدر کر دیا جائے۔ یہ تجویز 22 سالہ الیکزینڈرا میڑر کے قتل کے ایک روز بعد چھاپی گئی تھی۔ میڑر لبنانی نڑاد ایک سماجی کارکن تھیں، جنہیں مولنڈال شہر کے ایک مہاجر کیمپ میں ایک پندرہ سالہ پناہ گزین نے اس وقت ہلاک کر دیا، جب انہوں نے نابالغوں کے اس مرکز میں لڑائی رکوانے کی کوشش کی۔سویڈش حکام کو پہلے ہی سے بہت سے مسائل کا سامنا ہے، جن میں ریئل اسٹیٹ کی آسمان کو چھوتی قیمتیں، رہائش کے لیے مکانوں کی کمی، اساتذہ اور نرسوں کی انتہائی کم آمدنیاں اور نرسنگ ہومز کی قلت شامل ہیں۔ ریکارڈ تعداد میں مہاجرین کی آمد کے سبب یہ مسائل اور بھی گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :