کراچی ،عزیر بلوچ کا کم عمر نوجوانوں کو بھرتی کرنے کا انکشاف ،نوجوانوں کو بھتہ خوری اور دکانوں پر فائرنگ کیلئے استعمال کیا جاتا تھا،عزیر بلوچ سمیت گینگ وار میں ملوث کئی کمانڈروں کے جعلی ناموں سے شناختی کارڈ بنوانے کا انکشاف ،عزیر بلوچ کے دوران تفتیش انکشافات، ر ینجرز نے جے آ ئی ٹی کی تشکیل کیلئے حکومت سندھ سے را بطہ کرلیا،عزیربلوچ کے مقدمات جیل کے اندر اور انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں میں چلائے جائیں گے ،وفاق و سندھ حکومت،اس پر کوئی مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں چلایا جائے گا، اصولی فیصلہ کر لیا گیا

منگل 2 فروری 2016 08:40

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 2فروری۔2016ء) گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے کم عمر نوجوانوں کے بھرتی کرنے کے حوالے سے انکشاف کیا ہے۔ نوجوانوں کو بھتہ خوری اور دکانوں پر فائرنگ کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیاری گینگ وار شہر میں خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تاجر ہوں یا شہری ان میں خوف پیدا کرنے والے ملزمان کوئی اور نہیں بلکہ لیاری گینگ وار میں بھرتی کیئے گئے کم عمر نوجوان تھے۔

گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے کم عمر نوجوانوں کے بھرتی کرنے کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ کم عمر نوجوانوں میں شوکت آغا ، گلاب عرف گلابو ، شاہد پکٹ ، سلیم عرف سلو ، شریف بلوچ ، افضل بارودی ، نوید لاڈلہ ، ملا طارق شامل ہیں۔ لیاری کے کم عمر نوجوانوں کو بھتہ خوری اور دکانوں پر فائرنگ کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق بولٹن مارکیٹ ، شیر شاہ مارکیٹ، پان منڈی میں کم عمر لڑکوں نے بھتہ وصولی کی۔

بھتہ نہ دینے پر تاجروں کی دکانوں پر تالے بھی کم عمر نوجوانوں نے لگائے۔ بھتہ نہ ملنے پر نوجوان لڑکے دکانوں پر دستی بم حملے بھی کرتے تھے۔ تفیتشی ذرائع کا کہنا ہے کہ عزیر بلوچ سے ہر پہلو پر تفتیش کی جا رہی ہے۔ بابا لاڈلہ ، استاد تاجو ، امین بلیدی ، وصی لاکھو، عمر کچھی، اٹاٹو ، فیصل پٹھان ، ملا نثار گینگ وار کے اہم کردار تھے۔ کراچی میں کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے گرفتار سربراہ عزیر بلوچ سمیت گینگ وار میں ملوث کئی کمانڈروں کے جعلی ناموں سے شناختی کارڈ بنوانے کا انکشاف ہوا ہے۔

ان کو دو شناختی کارڈ کس نے بنا کر دیے تحقیقات شروع کردی گئیں۔ تفصیلات کے مطابق کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کے دو شناختی کارڈ بنائے جانے کے حوالے سے تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔تفتیش میں انکشاف ہوا کہ لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے دو علیحدہ علیحدہ نمبروں کے شناختی کارڈ بنا رکھے تھے۔ پہلے بنائے گئے شناختی کارڈ کا نمبر 4230107729421 میں تاریخ پیدائش دس اکتوبر 1973ء درج ہے جبکہ دوسرے شناختی کارڈ نمبر 4230143184171 میں تاریخ پیدائش دس اکتوبر 1977ء ہے۔

عزیر بلوچ کے شناختی کارڈ کی تصدیق کرنے والے افراد کی شناخت کا بھی حکم دیدیا گیا ہے۔ عزیر بلوچ نے لیاری میں قائم نادرا کے دفاتر سے زبردستی شناختی کارڈ بنوائے تھے۔ عزیر بلوچ نے اعتراف کیا کہ کئی گینگ وار کمانڈروں کو بھی جعلی ناموں سے اصلی شناختی کارڈ بنوا کر دیے گئے تھے۔بنائے گئے شناختی کارڈز پر گینگ وار کے کمانڈروں نے پاسپورٹ بھی حاصل کر رکھے تھے۔

عزیر بلوچ اور دیگر گینگ وار کمانڈرز جعلی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ کے ذریعے بآسانی بیرون ملک چلے جاتے تھے۔لیاری امن کمیٹی کے سر براہ عزیر بلوچ کے دوران تفتیش انکشافات کے بعد ر ینجرز نے جے آ ئی ٹی کی تشکیل کیلئے حکومت سندھ سے را بطہ کرلیاہے کیونکہ عز یر بلوچ اب حکومت سندھ کی تحویل میں ہیں ذرا ئع نے بتایا ہے کہ پیر کے روز حکومت سندھ کو ر ینجرز کا یہ پیغام پہنچ گیا ہے کہ عز یر بلوچ سے جے آ ئی ٹی کی تفتیش کیلئے سندھ ہائی کورٹ حکم دے چکی ہے اس لئے فوری طورپر جے آ ئی ٹی تشکیل دے دی جائے ذرائع نے بتایاہے کہ حکومت سندھ نے پیر کے روز آ ئی جی سندھ پولیس اور محکمہ داخلہ کے سینیئر حکام سے مشورے کیے تاکہ اس ضمن میں جلد جے آ ئی ٹی تشکیل دی جا سکے ذرائع کے مطا بق ایڈیشنل آ ئی جی سلطان خواجہ،ڈی آ ئی جی ڈا کٹر جمیل احمد،ڈی آ ئی جی عارف حنیف کے نام ز یر غور ہیں ان میں سے کسی ایک افسر کی سر برا ہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جا سکتی ہے حکومت سندھ نے آ ئندہ ایک دوروز میں اس ضمن میں حتمی فیصلہ کر لے گی جے آ ئی ٹی میں سندھ پولیس،ر ینجرز ،آ ئی ایس آئی،ایم آئی ،آئی بی،ایف آ ئی اے کے افسر ان شامل ہو تے ہیں۔

حکومت سندھ اور وفاقی حکومت نے اصولی طورپر فیصلہ کیا ہے کہ لیاری امن کمیٹی کے سربراہ عزیرجان بلوچ کے تمام مقدمات جیل کے اندر اور انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں میں چلائے جائیں گے اس پر کوئی مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں چلایا جائے گا، صوبائی محکمہ داخلہ اور صوبائی محکمہ قانون کے ذرائع نے بتایا ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت اجتماعی قتل عام ، فرقہ واریت اور ملک دشمنی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے جائیں گے، عزیر بلوچ پر تینوں کیٹگریز کے مقدمات درج نہیں ہیں، پیر کے روز حکومت سندھ نے اس ضمن میں اعلیٰ سطحی پر مشورے کیے وزیر اعلیٰ ہاوٴس اورچیف سیکریٹری آفس میں صوبائی مشیر قانون مرتضی، سابق وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک ، سیکریٹری قانون ، سیکریٹری داخلہ ، رینجرز حکام سندھ پولیس کے سینئر حکام اور ایڈوکیٹ جنرل سے طویل صلاح مشورے کیے، ذرائع نے بتایا کہ حکومت سندھ ڈاکٹر خالد سومرو کے قتل کیس کو فوجی عدالت میں بھیجنے اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے حکم امتناہی جاری کرنے کے کیس کو مدنظر رکھتے ہوئے اب احتیاط برتنی شروع کی ہے، ذرائع نے بتایا ہے کہ قانونی ماہرین نے عزیر بلوچ کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کی مخالفت کی ہے جس پر حکومت سندھ خاموش ہوگئی ہے۔

متعلقہ عنوان :