شریفوں اور زرداریوں کی حکومت کے مابین جاری میوزیکل چیئر کے باعث عوام ایک اور ”گمشدہ دہائی“ کی جانب بڑھ رہے ہیں ،عمران خان، نوجوان نسل ملکی معاشی ڈھانچے میں باعزت روزگار حاصل کرنے میں ناکام رہے گی، صحت، تعلیم اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات سے محرومی ان کا مقدر رہے گی، پاکستان پر مسلط شریف راج نوے کی اس دھائی کو دہرانے کیلئے سرگرم ہیں،حکومتی شخصیات کے بلندو بانگ دعوں کے برعکس حقائق سے واضح ہے سرمایہ کاری اور برآمدات جیسے عناصر میں نمایاں گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے، کاروباری لاگت میں انتہائی تیز ی سے اضافہ، ملک کے طول و عرض میں پھیلی کرپشن اور شہریوں پر محصولات کا خونخوار تسلسل ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں،اسد عمر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو

بدھ 13 جنوری 2016 09:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 13جنوری۔2016ء)شریفوں اور زرداریوں کی حکومت کے مابین گزشتہ آٹھ برس سے جاری میوزیکل چیئر کے باعث پاکستانی عوام نوے کی دہائی کی طرح ایک اور ”گمشدہ دہائی“ کی جانب بڑھ رہے ہیں ،جس میں پاکستان کی نوجوان نسل ملکی معاشی ڈھانچے میں باعزت روزگار حاصل کرنے میں ناکام رہے گی اور صحت، تعلیم اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات سے محرومی ان کا مقدر رہے گی۔

پاکستان پر مسلط شریف راج نوے کی اس دھائی کو دہرانے کیلئے سرگرم ہے جسے تعمیر و ترقی کے حوالے سے ملکی تاریخ میں بدترین دھائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حکومتی شخصیات کے بلندو بانگ دعوں کے برعکس حقائق سے واضح ہے کہ سرمایہ کاری اور برآمدات جیسے عناصر جنہیں دنیا کے کسی بھی معاشی ڈھانچے کی نمو میں بنیادی حیثیت حاصل ہے میں نمایاں گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں کاروباری لاگت میں انتہائی تیز ی سے اضافہ، ملک کے طول و عرض میں پھیلی کرپشن اور شہریوں پر محصولات کا خونخوار تسلسل ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں،ان خیالات کا اظہارچیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور مرکزی رہنما اسدعمرنے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیاانہوں نے کہا کہ ایک جانب بے روزگاری بڑھتے بڑھتے50لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔

محض دو بر س میں روزگار سے محروم ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد تقریباً پندرہ لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ مسلم لیگی حکومت کی نصف مدت گزر جانے کے باوجود سرمایہ کاری جی ڈی کے پندرہ فیصد پر مسلسل جامد ہوچکی ہے جو کہ بلاشہ کسی بھی جماعت کے دور حکومت میں کم از کم سطح ہے انہوں نے کہا کہمالی سال 2015میں سرمایہ کاری میں واضح گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے جس میں نجی شعبے کی جانب سے کیے جانے والے اخراجات 9.7فیصد کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے، جو کہ زرداری حکومت کے آخری برس سے بھی کم تھے جو کہ 9.8فیصد ریکارڈ کیے گئے۔

براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (FDI)میں بھی ایک دم زوال دیکھنے میں آیا اور مالی سال 2015میں یہ گھٹتے گھٹتے تقریبا پچاس فیصد تک کم ہوئی۔چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں چین کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری کے باوجود براہ راست بیرونی سرمایہ کار محض 851ملین USڈالرز تک محدود رہی جو کہ گزشتہ بارہ برس میں کم از کم سطح ہے۔ حالات روز بروز ابتری کی جانب گامزن ہیں جبکہ حکومت صورتحال کو سنبھالنے کی بجائے ظالمانہ ٹیکسوں کے نفاذ، منہ زور کرپشن اور منی بجٹ کے ذریعے معاملات کو مزید گھمبیر بنانے میں مصروف ہے۔

پاکستان کا کسان اپنی فصلوں کی قیمت میں نمایاں گراوٹ، زرعی ترسیلات کے نرخوں میں اضافے، اور پیدوار میں کمی ایسے مسائل میں بری طرح گر چکا ہے، جس کے باعث کپاس کی پیداوار میں نمایاں کمی دیکھنے میںآ ئی۔ نتیجتاً پاکستان جسے دنیا بھر میں ایک زرعی معیشت کے طور پر پہچانا جاتا ہے کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ اس زوال کا سارا خمیازہ چھوٹے کاشتکار اور کسان کو بھگتنا پڑا۔

عالمی بینک (WB)کے اعدادوشمار کے مطابق مسلم لیگ نواز کی دور حکومت کے ابتدائی دو برس کے دوران پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا جس کے باعث عالمی سطح پر پاکستان کی پوزیشن 189ممالک میں ایک سو اٹھائیس تک جا پہنچی۔ اسی طرح ورلد اکنامک فورم کی 2015کے حوالے سے شائع کردہ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ پاکستان میں منہ زور کرپشن، بجلی بحران کی شدت اور محصولات کی شرح میں انتہائی اضافہ پاکستانی صنعت میں مقابلے (Competitiveness)کے ماحول کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔

حکومت کی پالیسیاں مقامی صنعتوں کیلئے بھی انتہائی خطرناک اور تباہ کن ثابت ہورہی ہیں۔ کاروباری لاگت میں غیر معمولی اضافے کے باعث پاکستانی صنعتیں عالمی سطح پر مقابلے سے بتدریج باہر ہوتی جارہیں ہیں اور مالی سال 2016کے پہلے چار ماہ کے دوران برآمدات میں گیارہ فیصد کی نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے جو کہ گزشتہ ایک دہائی میں گراوٹ کی تیز ترین شرح ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ تیس ماہ کے دوران برآمدات میں مجموعی طور پر تقریبا اکیس فیصد کی کمی دیکھنے میں آئیانہوں نے کہا کہ۔

جب سے مسلم لیگ نواز نے اقتدار کی بھاگ دوڑ سنبھالی ہے اس نے اشیاء ضروریہ اور خدمات کے شعبے پر جی ایس ٹی، ریگولیٹری ڈیوٹیز اور ودہولڈنگ ٹیکسز کے نفاذ کے ذریعے عوام پر ظالمانہ ٹیکسوں کا ایک ناقابل برداشت سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ 2013کے انتخابی منشور میں ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ نہ کرنے کے وعدوں کے باوجود مسلم لیگ نواز نے حکومت میں آتے ہی سب سے پہلے جی ایس ٹی کی شرح کو 17فیصد بڑھایا اور حالات یہ ہیں کے یہی مسلم لیگ پارلیمان کی منظوری کے بغیر ڈیزل پر جی ایس ٹی کی شرح کو 51فیصد کی بلند ترین سطح پر لے جایا جا چکی ہے۔

ٹیکس بیس کو بڑھانے کیلئے موثر اقدامات اٹھانے کی بجائے حکومت نے بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے سارا بوجھ عوام تک منتقل کر دیا ہے۔ مالی سال 2015میں بلواسطہ ٹیکسوں کی شرح جس میں ودہولڈنگ ٹیکسز بھی شامل ہیں، جی ڈی پی کے 9.7فیصد رہی، جو کہ مجموعی طور پر اکٹھے کیے جانے والے ٹیکس کا 88فیصد بنتا ہے۔ اس کا موازنہ مالی سال 2013 سے کرنے کی ضرورت ہے جب یہ شرح جی ڈی پی کے 8.4فیصد تک محدود تھی۔

دوسری جانب حالات یہ ہیں کے براہ راست ٹیکسوں کی شرح میں مسلسل گراوٹ کا روجحان ہے اور حکومت عملی طور پر بارسوخ طبقات سے ٹیکس وصول کرنے اور FBRمیں اصلاحات لانے سے پہیم گریزاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کشکول توڑنے کا بھی وعدہ کیا تھاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی حکومت نے مہنگے قرضوں کا ایک ریکارڈ ذخیرہ جمع کیا ہے۔

مسلم لیگ نواز کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی جو پہلا کام کیا وہ یہ کہ اس نے عالمی مالیاتی ادارے (IMF)سے معائدہ کیا اور اپنے اقتدار کے محض 28مہینوں میں ملکی قرضوں کے حجم میں 4.7کھرب روپوں کا اضافہ کیا۔ حکومت کی اسی حکمت عملی کے باعث ہر پاکستانی ستمبر 2015تک ایک لاکھ بارہ ہزار روپے کا مقروض ہو چکا تھا، جبکہ مئی 2013میں ہر پاکستانی 85ہزار روپے کا مقروض تھا۔

محض یہی نہیں کہ میاں نواز شریف کی حکومت نے قرضوں کے حجم میں ریکارڈ اضافہ کیا بلکہ اس نے جو قرضے اکٹھے کیے وہ مہنگے ترین نرخوں پر اکٹھے کیے گئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے ستمبر 2015میں پانچ سو ملین USڈالرز کے جن یورو بانڈ کا انتہائی فخر سے اعلان کیا اس پر منافع کی شرح 8.25فیصد ہے جو کہ 2015میں دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی جانب سے لیے گئے قرضے پر منافع کی بلند ترین شرح ہے۔

مصر نے 5.9فیصد کی شرح سے ڈیڑھ ارب ڈالرز جمع کیے جبکہ سری لنکا نے 6.1فیصد کی شرح سے 650ملین ڈالرز حاصل کیے۔ 8.25فیصد کی شرح سے جمع کیے جانے والے پانچ سو ملین USڈالرز ملکی تاریخ میں کسی بھی حکومت کی جانب سے حاصل کیے جانے والا مہنگا ترین قرضہ ہے۔ 2007میں حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے یورو بانڈز امریکی خزانے سے محض دو فیصد بلند شرح پر جاری کیا گیاجبکہ شریف حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے یورو بانڈ کو امریکی خزانے سے 6.1فیصد کے Spreadپر جاری کیا گیا ہے، جس کی قیمت عام شہری اشیاء ضروریہ پر بھارے ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرنے پر مجبور ہونگے۔

نواز شریف نے قوم سے کیے گئے وعدوں میں بجلی بحران کو ختم کر کے پاکستان کو روشن پاکستان بنانے کا سب سے بڑا وعدہ کیا تھا، اب جبکہ میاں نواز شریف کی حکومت اپنے دورے اقتدار کے وسط میں کھڑی ہے بجلی اور گیس کی قلت خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ ملک میں گورننس کی صورت حال کو بہتر بنانے، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے دوران ہونے والے نقصانات کے ازالے اور ادائیگیوں کے عمل میں شفافیت لانے کیلئے بھی اب تک کوئی قابل ذکر اقدامات اٹھائے گئے نہ ہی معاملے میں سرگرمی دکھائی گئی۔

اس کے برعکس بجلی چوری اور نظام کی خرابیوں کا سارا بوجھ بجلی کے بلوں میں ریکارڈ اضافے کی صورت میں دیانتدار صارفین تک منتقل کر دیا گیا۔ ٹیرف ریلیزیشن سرچارج کی صورت میں 1.54روپے فی یونٹ اور ڈیٹ سروسنگ سرچارج کی مد میں 0.44روپے فی یونٹ کی صورت میں حکومت نے بجلی کے صارفین پر نئے ٹیکسز لاگو کیے جبکہ 2015 کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں یہ درج کیا گیا ہے کہ نئے ٹیرف اسٹرکچر کے ذریعے گردشی قرضوں کی ادائیگی کی کوشش میں ناقص انتظامیہ اور بجلی کے نظام میں موجود خرابیوں کا سارا بوجھ حتمی طور پر صارفین تک منتقل ہو جائیگا۔

حکومت ملک بھر میں بجلی کی بندش ختم کرنے میں بھی مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ نیپرا کے اعدادوشمار کے مطابق 2015میں بجلی کی قلت 4743میگا واٹ تک جا پہنچی جو کہ 2013میں 4227میگاواٹ تک محدود تھی۔ اسی طرح گیس کی قلت 2015میں بڑھ کر 2BCFDجو کہ 2013میں 1.6BCFDتھی۔ گیس کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے اور انتہائی منتازع انداز میں LNG کی درآمدکے باوجود حکومت گیس کی کمی کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے جس کا خمیازہ صارفین اور صنعتیں بھگتنے میں مصروف ہیں۔

پیپرا رولز کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کھلے عام بولی کے بغیر جس غیر شفاف انداز میں LNGکی ترسیل کی تیاریاں جاری ہیں وہ حکومت کے طرز عمل پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ یوں تو ناقص انتظامیہ میاں نواز شریف کی حکومت کا طرِہ امتیاز ہے، تاہم بجلی کا شعبہ اس کا سب سے بڑا نشانہ بنا۔ شریف حکومت کی جانب سے بجلی کے جو نمائشی منصوبے شروع کیے گئے ان میں سے بیشتر یا تو ناقابل عملدرآمد قرار دے کر ختم کر دیے گئے ہیں (گڈانی پاور پارک )یا پھر ان کی تعمیری لاگت بڑھ کر 300فیصد تک جا پہنچی ہے۔

نیلم جہلم پراجیکٹ جس کی قیمت صارفین سرچارج کی صورت میں صارفین ادا کرتے ہیں کی لاگت 2015میں 341فیصد یعنی 444ارب تک بڑھا دی گئی جو کہ 2011میں 130ارب تھی۔ اسی طرح نندی پور پراجیکٹ کی لاگت کو 2015میں 3سو فیصد اضافے کے ساتھ 65ارب تک لے جایا گیا جو کہ 2011میں 22ارب روپے تھی۔ یوں یہ ملکی تاریخ میں سب سے مہنگی بجلی پیدا کرنے والا واحد منصوبہ بن کر سامنے آیا۔

آخر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کے نواز شریف اور ان کی حکومت کے تمام تر دعووں کے باوجود نمایاں معاشی خدوخال (Key Ecnomic indicators)میں خطرناک حد تک ابتری دیکھنے میں آئی۔ برآمدات 2010سے اب تک نچلی ترین سطح پر ہیں جبکہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری بھی گزشتہ بارہ سال کی کم از کم سطح تک گر چکی ہے۔ شہریوں پر ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے جبکہ ٹیکس پالیسی کی حیثیت ایک مذاق سے کچھ زیادہ نہیں۔

بے روزگاری کی شرح بلند ترین ہے جبکہ بجلی کے بحران میں ابتری افزو تر ہے۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت کی جانب سے بجلی کے نظام کی اصلاح اور چوری میں کمی لانے کیلئے سنجیدہ اقدامات تاحال ناپید ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی ”تجربہ کارترین“ حکومت کے زیر اعتاب پاکستانی معیشت اپنے زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور آگے بڑھنے کی بجائے پوری قوم انتہائی تیزی سے پیچھے کی جانب سفر کرنے میں مصروف ہے