بنگلہ دیش:جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی کی سزا کیخلاف اپیل مسترد ،جماعت اسلامی کا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ملک گیر ہڑتال کا اعلان،مطیع الرحمن نظامی پر 1971 میں بنگالیوں کے قتل اور پاکستان کی حمایت کا الزام ہے

جمعرات 7 جنوری 2016 09:18

ڈھاکہ (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 7جنوری۔2016ء)بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمان نظامی کو 1971 میں جنگی جرائم پر سنائی گئی سزائے موت کو برقرار رکھا ہے،جنگی جرائم کے خصوصی ٹریبونل نے ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت کے 72 سالہ سربراہ کو گزشتہ برس نسل کشی، قتل، تشدد اور ریپ کے 16 الزامات کے تحت یہ سزا سنائی تھی۔بدھ کے روز بنگلہ دیش کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سریندر کمار سنہا کی سربراہی میں سینئر ججوں کے پینل نے اس سزا کے خلاف مطیع نظامی کی اپیل مسترد کر دی جبکہ مطیع الرحمان کی اپیل مسترد کیے جانے کے خلاف جماعتِ اسلامی نے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے،جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا موقف ہے کہ مطیع نظامی سمیت اس کے اہم رہنماوٴں کو سزا سنائے جانے کے پیچھے سیاسی عوامل کار فرما ہیں۔

(جاری ہے)

مطیع الرحمان نظامی 1971 میں جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم سے منسلک تھے اور ان پرپاکستان کی حمایت کا الزام ہے،مطیع الرحمان کی اپیل مسترد کیے جانے کے خلاف جماعتِ اسلامی نے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ 2010 میں قائم ہونے والے جنگی جرائم کے ٹربیونل نے مطیع الرحمان نظامی کے علاوہ جماعت اسلامی کے دیگر اہم رہنماوٴں کو بھی پھانسی کی سزا سنائی ہے جن میں سے عبدالقادر ملّا، قمر الزماں سمیت کئی افراد کو تخت دار پر لٹکایا بھی جا چکا ہے،جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ حکومت جنگی جرائم کے ٹریبونل کو اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ بھی کہہ چکی ہے کہ اس عدالت کا طریقہ کار بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔دوسری جانب برسرِ اقتدار جماعت ’عوامی لیگ‘ کا کہنا ہے ملک کے ماضی کو دفن کرنے کے لیے جنگی جرائم کی تفتیش ضروری ہے۔1971 میں نو ماہ تک جاری رہنے والی پاکستان سے علیحدگی کی جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے گئے ہیں،بنگلہ دیشی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں تقریباً 30 لاکھ مارے گئے، جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ تعداد حقیقت سے بہت زیادہ ہے اور نہ ہی ان اعداد و شمار کی کوئی تصدیق کی جا سکتی ہے۔