منرل واٹر کے نام پر مضر صحت پانی فروخت کیا جارہا ہے،ڈائریکٹر جنرل کوالٹی کنٹرول اتھارٹی،سزا پانچ ہزارجرمانہ تھا بڑھا کر تین لاکھ تجویز کر دیا ،سٹا ف میں کمی باعث چھوٹے شہروں نہیں بڑے شہروں میں چھاپے مار تے ہیں،سینٹ کمٹی کو بریفنگ،نیب کے پاس پہلے 28 سوسائیٹیوں کے کیسز تھے،کچھ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں ختم ہو چکی ہیں کچھ ٹرائل پر ہیں، ڈائریکٹر نیب کی تفصیلی بریفنگ

جمعرات 24 دسمبر 2015 10:04

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔24دسمبر۔2015ء)ء سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف و انسانی حقوق کا اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل کوالٹی کنٹرول اتھارٹی نے انکشاف کیا ہے کہ ادارہ1996 پرانے ایکٹ کے تحت کام کر رہا ہے اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں اس میں ترمیم کی ضرورت ہے ادارہ کے پاس زیادہ پینے کے صاف پانی کے حوالے سے کیسز آتے ہیں ملک میں منرل واٹر کے نام پر مضر صحت پانی فروخت کیا جارہا ہے ۔

پہلے سزا پانچ ہزار روپے جرمانہ تھا اب اس کو بڑھا کر تین لاکھ تجویز کر دیا گیا ہے کمیٹی نے جرمانے کے ساتھ سزا کی تجویز بھی شامل کرنے کی ہدایت کر دی ۔سٹا ف میں کمی باعث چھوٹے شہروں میں نہیں بلکہ بڑے شہروں میں چھاپے مار تے ہیں ۔بدھ کے روزچیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا ۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر تاج حیدر کے متعارف کرائے گئے قومی احتساب ترمیمی بل 2015 ، سینیٹر نجمہ حمید کے ستمبر2010 میں پوچھے گئے سوال جس میں پاکستان سٹنڈرز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی سے ان کمپنیوں کے نام پوچھے گئے تھے جنہوں نے غیر معیاری پراڈکٹس تیار کی تھیں اور ان کے خلاف ایکشن کے معاملات کی تفصیل شامل تھی ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں قومی احتساب بیور سے اسلام آباد میں قائم غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائیٹوں کے معاملات پر بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا ۔

سینیٹر تاج حیدر کی کمیٹی کے اجلاس میں مصروفیت کی بناء پر عدم شرکت پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ معاملے پر ان کی موجودگی میں بریفنگ حاصل کی جائے گی ۔ ڈائریکٹر جنرل PSQCA نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ادارہ 1996 کے ایکٹ کے تحت کام کر رہا تھا اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں اس میں ترمیم کی ضرورت تھی ہم نے تجاویز وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو بھیج دی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا کام ان پراڈکٹس کا معائنہ و ٹیسٹ کروانا ہے جن کی پیکنگ ہو چکی ہوتی ہے ۔اور پچھلے پانچ سالوں کی سمری جو 40 صفحات پر مشتمل ہے اور پوری رپورٹ سینکٹروں صفحات پر مشتمل ہے وہ بھی کمیٹی کو فراہم کر دی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس زیادہ پینے کے صاف پانی کے حوالے سے کیسز آتے ہیں ۔ ملک میں منرل واٹر کے نام پر مضر صحت پانی فروخت کیا جارہا ہے ۔

پہلے سزا پانچ ہزار روپے جرمانہ تھا اب اس کو بڑھا کر تین لاکھ تجویز کر دیا گیا ہے ۔جس پر چیئرمین کمیٹی و اراکین کمیٹی نے جرمانے کے ساتھ سزا کی تجویز بھی شامل کرنے کی ہدایت کر دی ۔انہوں نے کہا کہ ہم 37 فوڈ آئٹمز کو ڈیل کرتے ہیں اور جس آئٹم پر شک ہو اس پلانٹ پر چھاپہ مارتے ہیں پہلے نوٹس جاری کرتے ہیں اگر وہ بعض نہ آئے تو پھر عمارت کو سیل کرنے کے ساتھ جرمانہ عائد کر دیتے ہیں ہمارا لیگل ایکشن صرف اتنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سٹا ف کی کمی ہے ہم صرف بڑے شہروں میں چھاپے مار سکتے ہیں لوگ چھوٹے شہروں یا دور دراز علاقوں میں لیب پرنٹ لگا کر جوہڑوں سے پانی بھر کر فروخت کر رہے ہیں ۔ جس پر رکن کمیٹی سینیٹر ڈاکٹر محمد علی خان سیف نے کہا کہ یہ کریمنل ایکٹ کے زمرے میں آتا ہے جس سے لوگوں کو جانی و مالی نقصان ہو رہا ہو مضر صحت پانی و فوڈ آئٹم فروخت کرنے والوں کے خلا ف سخت سزائیں مقرر کی جائیں تاکہ لوگوں کو شفاف چیزیں میسر ہو سکیں ۔

سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر یہ کام کیا جاسکتا ہے ۔جس پر ڈی جی نے کہا کہ صرف سندھ کی انتظامیہ تعاون کر تی ہے پنجاب نے اس حوالے سے کبھی تعاون نہیں کیا اور پنجاب اتھارٹی کے پاس ٹیسٹ کرنے کیلئے لیب تک موجود نہیں ہے ۔کمیٹی نے ہدایت کی کہ ادارہ ایک ہفتے کے اندر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو اپنی سفارشات پیش کرے اور و ہ سفارشات کو منظور کر کے وزارت قانون کے حوالے کریں ۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ڈائریکٹر نیب نے قائمہ کمیٹی کو اسلام آباد میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائیٹوں کے معاملات پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس وقت اسلام آبا د میں تین اتھارٹیاںآ ئی سی ٹی ، سی ڈی اے اور آر ڈی اے کام کر رہی ہیں اور تینوں اتھارٹیوں نے غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کی لسٹ فراہم کر دی ہے ادارہ لیگل پروسیجر پر پہنچ چکا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ نیب کے پاس پہلے 28 سوسائیٹیوں کے حوالے سے کیسز تھے ۔کچھ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں تو ختم ہو چکی ہیں کچھ ٹرائل پر ہیں۔ کچھ غیر قانونی ہیں جنہوں نے این او سی اور لے آؤٹ پلان نہیں لے رکھا ۔ادارہ ان سوسائیٹیوں کی منیجمنٹ کی لسٹ تیار کر رہا ہے ۔اور کوشش کی جارہی ہے کہ عوام کو ان ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کے مالکان سے لوٹنے سے بچایا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم غیر قانونی سوسائیٹیوں کی اقسام بنا لی ہیں اور زونگ کر چکے ہیں ۔زون ون میں دو غیر قانونی سوسائیٹیاں جی الیون میں موجود ہیں ، زون ٹو میں آٹھ غیر قانونی سوسائیٹیاں قائم ہو چکی ہیں ، زون تھری جو مارگلہ اور نیشنل پارک کا حصہ ہے یہاں کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی قائم کی ہی نہیں جا سکتی ۔وہاں سات غیر قانونی سوسائیٹیاں وجود میں آچکی ہیں ، زون فور جو اسلام آباد پارک سملی ڈیم اور مری روڈ وغیرہ پر مشتمل ہے اس میں 30 غیر قانونی سوسائیٹیاں اور چھ فام ہاوسز بن چکے ہیں ، زون فائیو میں 26 غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائیٹیاں قائم ہو چکی ہیں ۔

انہوں نے کہا ک انکوائری کے مراحل کو تیز سے تیز بنا رہے ہیں ۔سوسائٹی اور منیجمنٹ کے اکاؤنٹس سیز کر رہے ہیں ۔تمام سکیموں کو دورہ کر کے ان کا تعین کیا جارہا ہے ۔جس پر قائمہ کمیٹی نے نیب کی اس حوالے سے کی گئی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ کام جتنا جلدی ہو سکے اس کو سرانجام دیا جائے عوام کو گھروں کے نام پر لوٹا گیا ہے ۔لوگوں کی ساری عمر کی کمائی یہ سوسائیٹیوں کے مالکان لوٹ چکے ہیں ملوث افراد کو بے نقاب کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور تین ہفتے کے اند ر نیب اس حوالے سے رپورٹ کمیٹی کو فراہم کر ے۔

سی ڈی اے کے ممبر فنانس وسیم نے قائمہ کمیٹی کو تبایا کہ کچی آبادی کے حوالے کمیٹی بنا دی گئی ہے ۔سروے کروایا گیا ہے اور 37 ہاؤسنگ سکیم اب غائب ہو چکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک ہاؤسنگ سکیم کیلئے کم ازکم چار سو کنال زمین ہونا ضروری ہے جبکہ 109 ہاؤسنگ سوسائیٹیوں میں سے80 فیصد کے پاس 400 کنال سے کم زمین ہے ۔انہوں نے کہا کہ زون اور فائیو میں کوئی ریگولیشن نہیں تھے ۔

اب وہاں بنائے جارہے ہیں ۔ان علاقوں میں کوئی ڈویلپمنٹ پلان بھی نہیں تھا اب کام شروع ہو چکا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس موثر میکنزم موجود ہے بہتراستعمال میں لا کر ان معاملات کو کنٹرول میں کر سکتے ہیں ۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جن لوگوں نے معاملات میں گڑبڑ کی ہے مل کر انہیں بے نقاب کریں ۔سی ڈی اے وزارت کیڈ کے ماتحت آ چکا ہے ۔وزارت کیڈ ان معاملات میں بہتری کے اقدامات کرے اگر کسی قانون سازی کی ضرورت ہے تو پارلیمان اس حواے سے بھی تیار ہے ۔کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹر ز ڈاکٹرمحمد علی خان سیف، سلیم ضیاء ، سعید غنی ، اور کلثوم پروین کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری کیڈ ، ممبر سی ڈی اے ، چیف کمشنر اسلام آباد ، ڈی جی نیب کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :