کراچی ، انسداد دہشتگردی عدالت نے ڈاکٹر عاصم کیس میں پولیس کی تفتیشی رپورٹ مسترد کردی ، مقدمہ انسداد دہشتگردی عدالت نمبر2میں منتقل کرنے کا حکم،پولیس نے ملزم کو حراست میں لے لیا،( آج) عدالت میں پیش کریگی، ڈاکٹر عاصم پر دہشتگردی کے الزامات کے شواہد نہیں ملے ، گواہوں کو نوٹس بھجوائے گئے لیکن کوئی پیش نہیں ہوا، سابق تفتیشی افسر اور گواہوں نے کیس کے حوالے سے تعاون نہیں کیا،ہسپتال کے کمپیوٹر سے ریکارڈ ملاتو تحویل میں کیوں نہیں لیا گیا، عدم شواہد کی بنیاد پر کیس کو اے کلاس کر دیا گیا ،اے کلاس کا مطلب کلین چٹ نہیں، سابق تفتیشی افسر نے بہت سی غلطیاں کی تھیں، نئے تفتیشی افسر الطاف حسین کی رپورٹ میں دعویٰ

منگل 22 دسمبر 2015 09:30

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22دسمبر۔2015ء)کراچی کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے پیپلز پارٹی کے رہنماو سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم کے کیس میں پولیس کی تفتیشی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر2میں منتقل کرنے کا حکم دیا اور کہاکہ ملزم الزامات تسلیم کر چکاہے اس لئے معاملے کا نوٹس لیا جاتاہے ۔ ملزم کو حراست میں لے کر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے، پولیس نے عدالت کے حکم پر ملزم کو حراست میں لے لیا ،ملزم کو (آج )انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت 2میں پیش کیاجائیگا ،اس سے پہلے ملزم نیب کی حراست میں تھے ۔

پیر کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے منتظم جج نعمت اﷲ پھلپھوٹوکی سربراہی میں بنچ نے ڈاکٹرعاصم کیس کی سماعت کی ۔

(جاری ہے)

اس دوران کیس کے تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین نے عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے رپورٹ پڑھ کر سنا ئی ۔انہوں نے کہاکہ سابق مشیر پیٹرولیم پر لگائے گئے دہشت گردی کے الزامات کے شواہد نہیں ملے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے ملزم پر لگائے گئے الزامات کی روشنی میں اپنی تفتیش مکمل کرلی ہے جس میں ڈاکٹر عاصم پر لگائے گئے دہشت گردی کے الزامات کے شواہد نہیں ملے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گواہوں کو نوٹس بھجوائے گئے لیکن کوئی پیش نہیں ہوا، سابق تفتیشی افسر اور گواہوں نے کیس کے حوالے سے تعاون نہیں کیا،ہسپتال کے کمپیوٹر سے ریکارڈ ملاتو تحویل میں کیوں نہیں لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ عدم شواہد کی بنیاد پر کیس کو اے کلاس کر دیا گیاتاہم اے کلاس کا مطلب کلین چٹ نہیں، سابق تفتیشی افسر نے بہت سی غلطیاں کی تھیں، رینجرز نے بھی 17ملزمان کو دوران ریمانڈ رہا کیا۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ زمینی حقائق مختلف تھے اس لئے ڈاکٹر عاصم کے خلاف دفعہ 147 لگائی، ایس ایس پی کے مشورے سے ڈاکٹر عاصم کو بے گنا قرار دیا،سابق تفتیشی افسر نے جانبداری سے کام لیا۔تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر یوسف ستار کا بیان بھی لیا گیا، ڈاکٹر یوسف ستار کا اقبالی بیان بھی پڑھ کر سنایا گیا جب کہ اس جگہ کا جائزہ بھی لیا گیا جہاں دہشت گردوں کا علاج ہوتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس تفتیش 4 دسمبر کو آئی جب کہ سابق تفتیشی افسر نے تعاون نہیں کیا اور جانبداری کا مظاہرہ کیا، کیس سے متعلق رینجرز سے تفصیلات حاصل کی گئیں تاہم بلز کی نقول اور دیگر تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئیں جس کے بعد ڈاکٹر عاصم کو دفعہ 497 کے تحت بری کرنے کا فیصلہ کیا۔پولیس کی ٍجانب سے تفتیشی رپورٹ پیش کئے جانے پر عدالت نے ڈی ایس پی الطاف حسین سے تمام گواہوں کا ریکارڈ طلب کیا جس پر تفتیشی افسرکا کہنا تھا کہ سابق تفتیشی افسرراو ذوالفقار نے انہیں تحقیقاتی رپورٹ فراہم نہیں کیں اور نہ ہی گواہوں کے بیانات کی نقول فراہم کی، ذاتی طورپرسٹی کورٹ کے مال خانے جا کرکیس پراپرٹی حاصل کی۔

اس کے علاوہ ضیا الدین اسپتال کے ملازمین ثمینہ خان، اشتیاق، محمد شاہد اور شہباز کے بیانات بھی قلمبند کئے گئے۔ ملازمہ ثمینہ کے بیان کے مطابق رینجرزنے اپنی مرضی سے ریکارڈ تبدیل کیا۔ڈاکٹر عاصم کے مقدمے میں بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ ڈاکٹرعاصم کے اسپتالوں میں دہشت گردوں ان دہشت گردوں کا علاج کیا گیا جن کے سروں پرحکومت سندھ کی جانب سے انعام مقررتھا، سیاسی شخصیات کے کہنے پرڈاکٹرعاصم نے دہشت گردوں کا علاج کرنے اور پناہ دینے کا اعتراف کیا۔

ڈاکٹر عاصم کیس کے نئے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نثار احمد درانی نے اپنے دلائل میں کہا کہ پولیس کے تفتیشی افسر کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ سے مطمئن ہوں، ڈاکٹرعاصم کوشخصی ضمانت پررہا کیا گیا لیکن کسی موڑ پر ڈاکٹرعاصم جرائم میں ملوث پائے گئے توانہیں شامل تفتیش کیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر عاصم کے وکیل عامر رضا نے کیس کی سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کے وکیل انور منصورکو روکنے کیلئے متعدد بار ٹیلیفون پر کالیں کر کے انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں، کیا اداروں کو اس طرح سے چلایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر عاصم کے وکیل انور منصورایڈووکیٹ نے کہا کہ میں نے پہلے بھی درخواست کی تھی کہ ہمیں چیمبر میں سنا جائے، یہ ڈاکٹر عاصم کی زندگی کا معاملہ ہے، یہ رویہ جو ڈاکٹر عاصم کے ساتھ روا رکھا گیا ہے درست نہیں ہے، ہم رینجرز سمیت تمام اداروں کا احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یوسف ستار کے کہنے پر ہارڈ ڈرائیور نکالی گئی، اسے یہ بھی معلوم تھا کہ ایک رجسٹرڈ اور بھی ہے، رینجرز نے ہارڈ ڈرائیور نکال کر ریکارڈ نکالااور پھر اسے کرپٹ کیا گیا، ایک مریض کا نام تبدیل کیا گیا مگر فون نمبر تبدیل نہیں کیا گیا۔

عدالت میں سماعت کے دوران رینجرز کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کی رائے سے عدالت کا اتفاق کرنا ضروری نہیں،حکومت ڈاکٹر عاصم سے ملی ہوئی ہے، دہشت گردی کے ملزم کو غیر قانونی ضمانت دی گئی،تفتیشی افسر نے شواہد ضائع کرنے کی کوشش کی، ملزم کو فائدہ دے کر کیس کو تباہ کیا جا رہا ہے۔عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ مجھے تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مجھے بتایا جائے کہ میرے خلاف کیا شواہد ہیں، میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ میری جان کو خطرہ ہے،ہسپتال سے ریکارڈ گن پوائنٹ پر اٹھایا گیا،میرے آباؤ و اجداد نے پاکستان بنایا تھا، پاکستان کو بچاؤں گا ،اس کیلئے چاہیے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے،میں ایک فوجی ہوں میرا بھی دل دکھتا ہے،مجھ پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا جو بعد میں سنایاگیا۔اس دوران عدالت نے نئے تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین کی رپورٹ 497مسترد کرتے ہوئے یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر2میں منتقل کرنے کا حکم دیا ۔ عدالت نے کہاکہ ملزم الزامات تسلیم کر چکاہے اس لئے معاملے کا نوٹس لیا جاتاہے ۔ ملزم کو حراست میں لے کر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے پولیس نے عدالت کے حکم پر ملزم کو حراست میں لے لیا جس کے بعد اسے (آج ) منگل کو انسداد دہشتگردی عدالت نمبر 2کی جج خالدہ یاسین کے سامنے پیش کیاجائیگا ۔

عدالت کا یہ فیصلہ سن کر ڈاکٹرعاصم حسین پریشان ہوگئے جبکہ ان کی رہائی کی بھی تمام قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں ۔ اس سے پہلے ڈاکٹرعاصم حسین نیب کی حراست میں تھے ۔قبل ازیں ڈاکٹر عاصم کے مقدمے میں اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کو تبدیل کرنے کے فیصلے کو رینجرز نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور رینجرز کے وکیل عنایت اﷲ درانی نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ محکمہ داخلہ نے چھٹی والے دن خاموشی سے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر مشتاق جہانگیری کو ہٹا کر اپنے من پسند وکیل نثار احمد درانی کو تعینات کر دیا۔

پراسیکیوٹر کی تبدیلی سندھ حکومت کی جانب سے بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے، حکومت سندھ ڈاکٹر عاصم کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔رینجرز کے وکیل نے کہا کہ مقدمہ تفتیشی مراحل میں ہے اور اس دوران کسی کو بھی پراسیکیوٹر تبدیل کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا، تبدیلی غیر قانونی ہے لہذا عدالت مشتاق جہانگیری کو ہی مقدمے میں اسپیشل پراسیکیوٹر رہنے دیا جائے اور درخواست کو سماعت کے لئے منظور کیا جائے۔

عدالت نے رینجرز کی درخواست منظور کرتے ہوئے جسٹس نعمت اﷲ پھلپوٹو کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ تشکیل دے دیا۔دوسری جانب سول سوسائٹی کی ایک بڑی تعداد نے ڈاکٹر عاصم کی ممکنہ رہائی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کے ہاہر دھرنا دے دیا۔ سول سوسائٹی نے سندھ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے غریب کے لئے الگ قانون جب کہ من پسند افراد کے لئے الگ قانون بنا رکھا ہے جو کسی صورت منظور نہیں، دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار ڈاکٹر عاصم کو سخت سزا دی جائے