فوج کی سول حکومت کے کام میں بے جا مداخلت کا تاثر درست نہیں ، خواجہ آصف،عدلیہ ہو ، میڈیا یا فوج سب اداروں نے قومی اہداف حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کیاہے ، سب اداروں کا ا حترام کرتے ہیں ، چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کچھ اہداف ہیں جو حاصل کرنے ہیں ، برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو

جمعہ 18 دسمبر 2015 09:46

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18دسمبر۔2015ء) وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ فوج کی سول حکومت کے کام میں بے جا مداخلت کا تاثر درست نہیں ، عدلیہ ہو ، میڈیا یا فوج سب اداروں نے قومی اہداف حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کیاہے ، سب اداروں کا ا حترام کرتے ہیں ، چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کچھ اہداف ہیں جو حاصل کرنے ہیں ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ملک میں پائے جانے والے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ موجودہ فوجی قیادت سول حکومت کے کام میں بے جا مداخلت کر رہی ہے۔

ناقدین یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج سول حکومت کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے، انھیں آج کے دور کو ماضی کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ’میں فوجی طرز حکمرانی کا بہت بڑا ناقد تھا اور ہوں لیکن میں آج کے ماحول میں بہت مطمئن محسوس کرتا ہوں۔

(جاری ہے)

آج بھی اگر میں اپنے ضمیر میں چبھن محسوس کروں کہ فوج سول حکومت کے کام میں مداخلت کر رہی ہے تو میں اپنی آواز ضرور بلند کروں گا۔

‘’وزیرِ دفاع نے کہا کہ ’پاکستان میں 40 سال تو فوج نے براہ راست حکمرانی کی ہے اور بالواسطہ طور پر بھی وہ حکومتوں پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہم ایک عبوری مرحلے سے گزر رہے ہیں اور آئندہ تین چار سال میں ہم کامیابی سے اپنی منزل کو پا لیں گے۔‘انھوں نے کہا کہ اس ارتقائی مرحلے میں سویلین یا سیاست دان کے طور پر مجھیجلدی نہیں ہونی چاہیے کہ میں سارے اختیارات پر قابض ہو جاوٴں۔

’یہ تاثر درست نہیں ہے کہ ہمارا کسی دوسرے ادارے کے ساتھ (اختیارات کے حصول کے لیے) مقابلہ ہے۔ ہم اداروں کی حیثیت سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ ایک ایسے فرد کے طور پر جس نے چار فوجی حکومتیں دیکھی ہیں، میرا تجزیہ ہے کہ ایک اور عام انتخابات اور اقتدار کی پرامن منتقلی کے بعد یہ افواہیں اور کھسر پھسر بند ہو جائے گی۔‘ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ ہمارا کسی دوسرے ادارے کے ساتھ (اختیارات کے حصول کے لیے) مقابلہ ہے۔

ہم اداروں کی حیثیت سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ ایک ایسے فرد کے طور پر جس نے چار فوجی حکومتیں دیکھی ہیں، میرا تجزیہ ہے کہ ایک اور عام انتخابات اور سویلین منتقلی اقتدار کے بعد یہ افواہیں اور کھسر پھسر بند ہو جائے گی۔انھوں نے ترکی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں فوج اور سول حکومت کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی چلتی رہتی تھی لیکن کئی سالوں کی محنت اور انتظار کے بعد اب وہاں جمہوریت کی جڑیں بہت مضبوط ہو چکی ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ انھیں فوج کی جانب سے سول حکومت کی طرز حکمرانی یا گورننس پر تنقید کیے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، تو وزیر دفاع نے کہا کہ یہ تنقید عدلیہ اور میڈیا بھی تو کرتے ہیں۔’ہم یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ عدلیہ کا کام تو قانون کی تشریح ہے وہ گورننس پر کیوں تنقید کر رہی ہے۔ تو پھر صرف فوج ہی کے بارے میں یہ سوال کیوں پوچھا جاتا ہے؟‘ فوج اور حکومت کی جانب سے گاہے بگاہے ایسے بیانات سامنے آتے ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دونوں جانب سرد جنگ کی سی کیفیت ہیانھوں نے کہا کہ اس وقت یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک قوم کی حیثیت سے جن چیلنجوں کا ہمیں سامنا ہے ان سے نمٹنے کے لیے کچھ اہداف ہیں جو ہم نے حاصل کرنے ہیں۔

ان میں امن کا قیام، معاشی بحالی اور گورننس کے بڑے مسائل ہیں جن سے ہم نے ایک قوم کی حیثیت سے نمٹنا ہے۔’اس مرحلے میں اگر ہم اس چکر میں پڑ گئے کہ بھئی یہ جو لوگ کام کر رہے ہیں اس نے سوٹ ٹائی پہنی ہوئی ہے، شلوار قمیض پہنی ہوئی ہے یا خاکی وردی پہنی ہوئی ہے، یہ میرے لیے اہم بات نہیں ہے۔‘انھوں نے کہا کہ عدلیہ ہو، میڈیا یا فوج ان سب اداروں نے قومی اہداف حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور اس بنا پر ہم ان سب اداروں کا احترام کرتے ہیں۔

’اگر فوج اس قومی مقصد کے حصول میں کوششوں کی قیادت کر رہی ہے تو وہ اپنا فرض ادا کر رہی ہے۔ باقی ادارے یعنی پارلیمنٹ، عدلیہ اور سیاست دان بھی اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ایسے میں یہ بحث اہم نہیں ہے کہ کون زیادہ حصہ ڈال رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سب مل کر حاصل کیا کر رہے ہیں۔‘اہم دفاعی معاملات پر فیصلے کابینہ کمیٹی برائے دفاع کے بجائے ایپکس کمیٹی میں کیے جانے کے بارے میں ایک سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ کابینہ کی دفاعی کمیٹی اور ایپکس کمیٹی بنیادی طور پر ایک ہی جیسے ادارے ہیں اور فرق صرف نام کا ہے۔

متعلقہ عنوان :