قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنیوالے ججوں کیخلاف کاروائی کیلئے نظام موجود ہے،چیف جسٹس،سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایات پر قانونی تقاضوں کے مطابق کارروائی کی جارہی ہے،کئی وکلاء نے ماتحت عدالتوں میں غیر قانونی حرکات کیں،قاضی اور وکلاء اپنے فرائض سے گریزاں ہیں، ذاتی احتساب پر آمادہ ہو جائیں تو ملک امن و انصاف کا گہوارہ بن سکتا ہے،جسٹس اعجازچوہدری،تقریب سے خطاب

منگل 15 دسمبر 2015 09:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔15دسمبر۔2015ء)جسٹس اعجازچوہدری کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہاہے کہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے ججزصاحبان کے خلاف تادیبی کارروائی کے لیے موثر نظام موجود ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل کے زیرغورکئی شکایات پر قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کاروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔

یہ ایک قابل افسوس امر ہے کہ ماضی قریب میں متعدد وکلاء نے ماتحت عدالتوں کے اندر غیر قانونی حرکات کا ارتکاب کیا مگر اُن کے خلاف متعلقہ بار کونسل کی جانب سے مناسب کارروائی عمل میں نہ لائی گئی۔ایسے واقعات کا اعادہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔اس سے یقیناًعدلیہ کا وقار مجروح ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

سبکدوش ہونے والے جج جسٹس اعجازچوہدری نے کہاہے کہ فراہمیِ انصاف فطرت اور صفتِ خدا وندی ہے۔

مگر اس لمبے سفر میں جو کچھ میں نے محسوس کیا وہ فطرت کے تقاضائے انصاف سے بری طرح متصادم نظر آیاہے۔ ہر دو اطراف قاضی اور وکلاء شدید تکلیف دہ طریقے سے اپنے فرائض سے گریزاں ہیں۔ اگرہر دو اطراف ذاتی احتساب پر آمادہ ہو جائیں تو ملکِ عزیز امن و انصاف کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے نظام انصاف میں ایسی ناقابلِ علاج بیماریاں در آئی ہیں کہ ہمارا سسٹم مختلف عوامل خبیثہ کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے۔

کذب و افتراء نے پورے نظامِ عدل کو اپنی مضبوط جکڑ اور گرفت میں لے رکھا ہے۔ دیوانی کیا، فوجداری کیا، الّا ماشا ء اللہ، سیم و زر میں متوازن نظامِ عدل، فی الواقعی حق و انصاف اور سچ کو بالائے طاق نہیں، طاقِ نسیاں میں رکھ کر اوپر کنڈلی مار کر ، پھَن پھیلائے بیٹھا ہے ۔ اب تو یہ ایک روش ِ عام بن چکی ہے۔ میں نے اپنے کیریئر کے دوران یہ محسوس کیاہے کہ جہاں کسی حد تک نظام بھی خرابی کا شکار ہے وہیں اخلاقی گراوٹ اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ لوگ سچ بولنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔

جج صاحبان کا سارا وقت صرف سچ کی تلاش میں گزر جاتا ہے اور اس وجہ سے منصف کا کام بے حد مشکل ہو چکا ہے۔ جھوٹے مقدمات کی بہتات ہے۔ اکثر لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنی اناء کی تسکین کے لئے جھوٹے مقدمات میں دوسروں کو ملوث کرتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی جھوٹے اور معمولی مقدمات کی وجہ سے عدلیہ پر بے حد دباؤ بڑھ چکا ہے۔ باوجود اس کے کہ ججز کی بہت کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح زیرِ التواء کیسز کو جلد از جلد ختم کیا جا ئے، مگر مقدمات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

بیشتر مقدمات ایسے ہوتے ہیں جن کو اعلیٰ عدالتوں تک پہنچنا ہی نہیں چاہیئے۔ اس صورتِ احوال کی اصلاح کے لیئے ہر سطح پر انصاف کے دونوں پہیوں وکلاء اور ججز کواپنی صلاحیتیں انتہائی اخلاص کے ساتھ بروئے کار لاتے ہوئے نظامِ عدل کو بہتر بنانا ہو گا۔جبکہ پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین اعظم نزیرتارڑ نے کہاہے بنچ اوربار انصاف کی گاڑی کے دوپہیے ہیں کہ جن کومل کرچلناہوگاجسٹس اعجازچودہری کے حوالے سے ایک درخواست کی تاحال سماعت نہیں کی گئی ہے جبکہ صدر سپریم کورٹ بار بیرسٹر علی ظفرنے کہاہے کہ ایڈہاک ججزکے تقرر کے حوالے سے بارکوتحفظات ہیں اسلیے وہ پارلیمنٹ کے پاس جارہے ہیں ،نیب ،الیکشن کمیشن سمیت ملک کے اہم اداروں کوآذادی دیناہوگی،وفاق اورصوبائی حکومتیں ملک مین تعلیمی ایمرجنسی کانفاز کریں ،پارلمیانی کمیٹی ججز کے تقرر میں خود کوربڑ سٹیمپ قرار دے چکی ہے ججز کاتقر راوپن ،میرٹ اورشفاف ہوناچاہیے ،پیرکوساڑھے گیارہ بجے فل کورٹ رینفرنس کاانعقاد کیاگیاجس میں چیف جسٹس پاکستان انور ظہیرجمالی نے خطاب کیااورکہاکہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج کی قابلیت کا معیار چند بنیادی خصوصیات جیسا کہ تجربہ، سیکھنے کی صلاحیت، حقائق کی جانچ پڑتال، قانونی سوجھ بوجھ اور اظہار رائے پر مشتمل ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک جج کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نہ صرف ملکی سطح پر معاشرتی ، معاشی اور سیاسی مسائل سے بخوبی آگاہ ہوبلکہ عالمی دنیا میں رونما ہونے والے حالات و واقعات اور تغیروتبدل کا بھی ادراک رکھتا ہو۔معلومات تک فوری رسائی نے کرہٴ ارض کو ایک چھوٹی سی بستی میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اس لیے آج کا کوئی بھی معاشرہ دیگر معاشروں سے غافل نہیں رہ سکتا۔

ایسی صورت ِحال میں ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم اقوام عالم کے ہمراہ ترقی کے سفر میں اپنی معاشرتی اقدار کو کیسے استوار رکھ سکتے ہیں ۔ ان تمام امور کا ادراک رکھنے والا شحص ہی مقدمات کا فیصلہ بہتر انداز میں کرسکتا ہے اور اس طرح سے نہ صرف فریقین مقدمہ کے حقوق کاتحفظ ممکن بناتا ہے بلکہ معاشرے کے دیگر مسائل کے حل میں بھی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

یہاں میں یہ کہوں گا کہ جناب جسٹس اعجاز احمد چوہدری صاحب کی ذات میں یہ تمام خصوصیات موجودہیں اور آپ مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت انہیں بخوبی استعمال میں لاتے رہے ہیں۔ اسلام میں فراہمیِ انصاف کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ عدل کا تصور اسلام میں کسی بھی دوسرے نظامِ انصاف کے مقابلے میں زیادہ جامع، اہم اور مقدس ہے ۔ قانون کی نظر میں ہر شحض کی برابری، عدلیہ کی آزادی اور احتساب جیسے جدید تصورات کی بنیاد دراصل اسلام نے ہی فراہم کی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظامِ عدل میں قانون کو اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ قرآن اور سنت میں بنی نوع انسان کی برابری کا اصول وضع کیا گیا ہے۔ہر شخص چاہے وہ غریب ہو یا امیر، غلام ہو یاآقا، رعایا ہو یا حاکم، قانون کی نظر میں سب کے سب برابر ہیں اور ہر شخص اپنے افعال کے سلسلے میں عدالت کو جوابدہ ہوتا ہے،کوئی بھی ادارہ اس وقت تک مناسب طور پر اپنا کام انجام نہیں دے سکتا جب تک کہ اس میں کام کرنے والے افراد کے لیے وضع کردہ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد نہ ہو رہا ہو۔

آئین کے آرٹیکل209(8)کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل نے اعلی عدلیہ ، جس میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ شامل ہیں،کے جج صاحبان کے لیے ضابطہ اخلاق وضع کر رکھا ہے۔ جس کے مطابق ایک جج کے لیے ضروری ہے کہ وہ خوف خدا رکھنے والا، قانون کی پیروی کرنے والا، پرہیز گار، صاحبِ الرائے، محتاط و بردبار، اور لالچ میں نہ آنے والا ہو۔ مزید برآں وہ اپنے عدالتی کام کے دوران اور دیگر برادر جج صاحبان کے ساتھ تعلقاتِ کار میں نہ صرف اپنی عدالت میں بلکہ دیگر عدالتوں کے مابین ہم آہنگی کے لیے اور نظام انصاف کی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہے۔

اسی طرح ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کے لیے بھی متعلقہ ہائی کورٹس نے قواعد و ضوابط جاری کئے ہوئے ہیں اور ہرجج پر لازم ہے کہ وہ ان قواعدو ضوابط پر کار بند ریں۔ اگر کوئی بھی جج، خواہ وہ اعلیٰ عدلیہ سے تعلق رکھتا ہو یا ماتحت عدلیہ سے، ان قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرے تو اس کے خلاف تادیبی کاروائی کے لیے موثر نظام موجود ہے۔ جب بھی کسی جج کے خلاف کوئی شکایت موصول ہوتی ہے تو متعلقہ سطح پر اس کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

اس سلسلے میں آجکل بھی کئی شکایات متعلقہ فورم پر زیر غور ہیں۔ جن پر قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کاروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔اسی طرح وکلاء کے لیے بھی ضابطہ اخلاق موجود ہے جس کی خلاف ورزی کی صورت میں انضباطی کاروائی کا نظام وضع کیا گیا ہے۔یہ ایک قابل افسوس امر ہے کہ ماضی قریب میں متعدد وکلاء نے ماتحت عدالتوں کے اندر غیر قانونی حرکات کا ارتکاب کیا مگر اُن کے خلاف متعلقہ بار کونسل کی جانب سے مناسب کارورائی عمل میں نہ لائی گئی۔

ایسے واقعات کا اعادہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔اس سے یقیناًعدلیہ کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ پیشہ وارنہ بدعملی کی صورت میں فوراً کاروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں اس کا تدارک ہوسکے۔میں نے پہلے بھی کئی مواقع پر اس بات کا ذکر کیا ہے اور آج بھی اس بات کو دہراتا ہوں کہ تمام وکلاء کے لیے ضروری ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق کی کامل پاسداری کریں تاکہ نہ صرف نظام انصاف میں بہتری لائی جاسکے بلکہ اس بات کا حقیقی تاثرقائم ہو کہ وکلاء، جو کہ تعلیم یافتہ ہیں اور ایک اعلیٰ پیشے سے وابسطہ ہیں،وہ قانون کی حکمرانی پر کاملِ یقین رکھتے ہیں اور اس اصول کو اپنے اوپر بھی بے لاگ لاگو کرتے ہیں ان الفاظ کے ساتھ میں اپنی طرف سے اور اپنے رفقاء جج صاحبان کی طرف سے جناب جسٹس اعجاز احمد چوہدری صاحب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اور دعاگوہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سکونِ قلب اور طویل عمر عطا فرمائے۔

آمین