پاکستان اور افغانستان کی مسلح گروپوں کوہتھیارپھینک کرسیاسی عمل کا حصہ بننے کی دعوت، خطے میں پائیدار ترقی کے لئے پائیدار امن ضروری ہے ، افغانستان میں امن قائم ہو گا تو اس سے پورا خطے مستفید ہو گا ، ،دہشت گردی سے نمٹنا مشترکہ ذمے داری ہے،ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان دہشت گردی کیخلاف کامیابی سے جاری ہے،ہم اپنی سرزمین سے ہر صورت دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں ،وزیر اعظم نواز شریف،پاکستان میں جاری آپریشن سے دہشت گرد افغانستان منتقل ہوگئے ہیں،غربت کا خاتمہ ہمارا اہم ترین ہدف ہے،پاکستان کے ساتھ مضبوط رابطوں کے خواہشمند ہیں ،ترکمانستان میں جلدتاپی گیس پائپ لائن کا افتتاح کرینگے، کاسا1000 منصوبے سے خطے کے ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں گے ،افغان صدر اشرف غنی کا ہاٹ آف ایشیاء کانفرنس سے خطاب،بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اگلے سال پاکستان آئیں گے ، سشما سوراج ، افغانستان سے دہشگردی اور انتہا پسند ی کا خاتمہ کر نا افغانستا ن کی ذمہ داری ہے، بھارت افغانستان میں امن کیلئے تعاون پر تیار ہے ،بھارتی وزیرخارجہ کا ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے خطاب

جمعرات 10 دسمبر 2015 09:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10دسمبر۔2015ء)پاکستان اور افغانستان نے دہشت گردی کو مشترکہ دشمن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کو ملکر اس ناسور کے خاتمے کے لئے کام کرنا ہوگا ،تماممسلح گروپوں کو ہتھیار پھینک کر سیاسی عمل کا حصہ بننا ہوگا ،دہشت گردی کا مقابلہ کرنا پوری عالمی برادری کی ذمے داری ہے،خطے میں ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس سے دہشت گردوں کے معاونین کا پتہ لگایا جاسکے ،خطے کی ترقی کیلئے غربت کا خاتمہ ناگزیر ہے،ہمیں اس پر بھی توجہ دینی ہوگی ۔

پانچویں ”ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس“ کا آغاز تلاوت کلام پاک اور قومی ترانے سے ہوا ۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا جبکہ باقاعدہ آغاز وزیراعظم نوازشریف اور افغان صدر اشرف غنی نے خطاب سے کیا ۔

(جاری ہے)

اس سے قبل افغان صدر اشرف غنی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کیلئے اسلام آباد پہنچے تو وزیر اعظم نواز شریف، وفاقی وزراء ، مسلح افواج کے سربراہان نے معزز مہمان کا نور خان ایئر بیس پرپرتپاک استقبال کیا جبکہ وزیر اعظم نواز شریف جذبہ خیرسگالی کے تحت خود معزز مہمان کے استقبال کیلئے ایئرپورٹ پہنچے۔

وفاقی وزراء خواجہ آصف، عبدالقادر بلوچ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ایئر چیف سہیل امان اور نیول چیف ایڈمرل ذکاء اللہ نے بھی افغان صدر کا استقبال کیا۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی، مشیر برائے امور قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے بھی اس موقع پر موجود تھے۔ افغان صدر اشرف غنی کو اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔بعد ازاں دونوں ممالک کے قومی ترانوں کی دھنیں بجائی گئیں ، مسلح افواج کے چاک و چوبند دستے نے معزز مہمان کو سلامی دی ، افغان صدر نے گارڈ آف آنر کا معائنہ بھی کیا۔

کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سواراج سمیت 14 رکن ممالک و 17 معاون ممالک کے وزراء خار جہ اور 12 بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کے نمائندے اور اعلیٰ سطحی وفود شرکت کررہے ہیں۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے کہا کہ کانفرنس میں تمام مہمانوں کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتاہوں اور مجھے خوشی ہوئی ہے کہ افغان صدر میرے ساتھ ملکر کانفرنس کا آغاز کررہے ہیں۔

علامہ اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا دل کہا تھا ،علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ایشیا جسم اور افغانستان دل ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ مسلسل امن کے لیے پْر امن افغانستان لازمی ہے،یہ کانفرنس استنبول کانفرنس کا تسلسل ہے ،پاکستان ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے عمل کو سراہتا ہے،کانفرنس کا مقصد خطے میں امن اور انسانی اقدار کا فروغ ہے،پاکستان خطے کے تمام ملکوں سے مضبوط تعلق رکھنے کا عزم رکھتا ہے،افغانستان کے دشمن پاکستان کے دشمن ہیں، خطے میں پائیدار ترقی کے لئے پائیدار امن ضروری ہے ، افغانستان میں امن قائم ہو گا تو اس سے پورا خطے مستفید ہو گا ، پرامن افغانستان ہماری پالیسی ہے اور پرامن ہمسائیگی ہی ہمارا ویژن ہے ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان افغانستان میں جمہوری حکومت کی مکمل حمایت کرتا ہے اور افغانستان ایک خود مختار ملک ہے،عالمی برادری افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرتی ہے،افغانستان کے دشمن ہمارے دشمن ہیں ، داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں ہمارے عزمکو اور بھی مضبوط کرتی ہیں، دہشت گردی ہم سب کی مشتر کہ دشمن ہے،دہشت گردی سے نمٹنا مشترکہ ذمے داری ہے،ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان دہشتگردی کیخلاف کامیابی سے جاری ہے، انہوں نے کہاکہ ہم اپنی سرزمین سے بھی دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے آپریشن ضرب عضب سمیت دہشت گردوں کیخلاف متعدد ٹارگیٹڈ آپریشنز بھی جاری ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان اور افغانستان میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں اور ہم صرف ہمسائے ہی نہیں بلکہ دو بھائیوں کی طرح ہیں ۔انہوں نے کہاکہ افغانستان میں امن پاکستان کیلئے بھی بہت ضروری ہے اور دونوں ممالک کا مستقبل امن سے ہی وابستہ ہے۔باہمی تعلقات کی مضبوطی انتہائی اہم ہے۔افغان صدر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں شرکت کرکے بہت خوشی ہوئی کانفرنس کے بہترین انتظامات پر حکومت پاکستان کے شکرگزار ہیں،افغانستان میں انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے لیے ترکمانستان کے مشکور ہیں،دیگرمسائل کی طرح افغان مہاجرین کی آبادکاری بھی ایک مسئلہ ہے، پاک افغان عوام ایک دوسرے کے دوست ہیں ،افغان مہاجرین کی میزبانی پر پاکستان کے شکر گزار ہیں۔

انہوں نے کہاکہ افغانستان نے دہشت گردگروپوں کے خلاف 40آپریشن کیے ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ مل کر لڑنی ہوگی،افغانستان میں امن کیلیے امریکا اور نیٹو کے شکرگزار ہیں،تمام مسلح گروپوں کو ہتھیار پھینک کر سیاسی عمل کا حصہ بننا ہوگا ،دہشتگردی کا مقابلہ کرنا پوری عالمی برادری کی ذمے داری ہے ،پاکستان اور افغانستان نے اس جنگ میں اپنے بچے قربان کیے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ایسے نظام کی ضرورت ہے جس سے دہشتگردوں کے مالی معاونین کا پتا چل سکے،افغانستان میں تنازع کی پہلی وجہ دہشتگرد گروپس ہیں ،دہشتگردگروپس خطے کے نہیں بین الاقوامی برادری کیلیے بھی بڑامسئلہ ہیں،عوامی مقامات کو وحشیانہ طور پر نشانہ بنایا گیا۔انہوں نے کہاکہ افغانستان میں بین الاقوامی دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جبکہ پاکستان میں جاری آپریشن کی وجہ سے بہت سے دہشت گرد افغانستان بھی آئے ہیں ۔

ہمیں ملکر دہشت گردی کو خاتمہ کرنا ہو گا ۔انہوں نے کہاکہ تعاون پر امریکا،جرمنی،یورپی یونین اوربین الاقوامی برادری کے شکرگزارہیں۔افغان صدر نے کہاکہ چین کے ساتھ رابطوں کو مربوط بنانے کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں،افغانستان گزشتہ برسوں میں خانہ جنگی کا شکار رہا،خطے کے دیگر ممالک سے مضبوط رابطوں پر کام کررہے ہیں ،غربت کا خاتمہ ہمارا اہم ترین ہدف ہے،پاکستان کے ساتھ مضبوط رابطوں کے خواہشمند ہیں ،ترکمانستان میں جلدتاپی گیس پائپ لائن کا افتتاح کرینگے، بیجنگ کانفرنس میں سیکیورٹی سمیت سیاسی ومعاشی معاملات پر بات کی ،جمہوری معاشرے میں تشدد پسندی کا کوئی مقام نہیں،ہمارے بچوں کو اسکول جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔

افغان صدر نے کہا کہ ہماری خواتین پر دوران شاپنگ حملے کیے گئے،ترکمانستان میں جلد تاپی گیس پائپ لائن کا افتتاح کریں گے،بیجنگ کانفرنس میں سیکیورٹی سمیت سیاسی ومعاشی معاملات پر بات کی،ہمارا ہائی ویز اور ریلوے پروگرام جاری ہے،دوسریملکوں سے زمینی رابطے بھی جاری ہیں،ترقیاتی منصوبوں سیمتعلق ترکی،چین،بھارت کیبھی مشکورہیں،جلدترکمانستان کیساتھ بجلی وگیس کی فراہمی کے معاہدے کیے جائیں گے،کاسا1000 منصوبے سے خطے کے ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں گے ،2015میں خطے میں ہم آہنگی کی شروعات ہوگئی ہے،افغانستان کوسیکیورٹی،معیشت اورروزگارکے مسائل کاسامناہے،مہاجرین کا معاملہ دونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے،افغانستان تیزی سے وسط ایشیا سے منسلک ہورہا ہے،پاکستان کے ساتھ مضبوط رابطوں کے خواہشمند ہیں،افغانستان اپنے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہاہے،وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ ٹرانس میشن لائن کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ خطے کے ممالک کو غربت کے خاتمے کے لئے بھی توجہ دینی چاہیے افغانستان غربت کے خاتمے کے لئے کوشاں ہے اور ترقی کے مشن کو آگے بڑھائیں گے ۔واضح رہے کہ ترکی اور افغانستان کے اقدام سے ہارٹ آف ایشیااستنبول کا قیام 2011ء میں عمل لایا گیا۔ اس کا اہم مقصد افغانستان میں طویل المدتی امن، استحکام اور ترقی کے لئے علاقائی تعاون اور رابطے کی کوششوں کو فروغ دینا ہے،نفرنس کے موقع پر سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لئے تعاون میں اضافے اور ہارٹ آف ایشیا ریجن میں رابطے کے فروغ کے موضوع پر اسلام آباد اعلامیہ کی بھی منظوری دیئے جانے کی توقع ہے۔

اعلامیہ میں خطے میں امن، سلامتی، اقتصادی ترقی اور رابطوں کے فروغ کے لئے پائیدار کوششیں کرنے کے لئے ہارٹ آف ایشیا ممالک اور شراکت داروں کی طرف سے بھرپور عزم کا اظہار کیا جائے گا۔ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کیرکن ممالک میں پاکستان، افغانستان، روس، چین، بھارت، سعودی عرب، ایران، آذربائیجان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اورمتحدہ عرب امارات بھی رکن ممالک میں شامل ہیں۔

کانفرنس کے 17 معاون ممالک میں امریکا، برطانیہ، سوئیڈن، اسپین، پولینڈ، ناروے، جاپان، اٹلی، جرمنی، عراق، فن لینڈ، فرانس، یورپی یونین، مصر، ڈنمارک، کینیڈااورآسٹریلیا شامل ہیں۔ادھربھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ اقتصادی ترقی کے علاوہ افغانستان میں امن کا کوئی راستہ نہیں، بھارت افغانستان میں امن و استحکام میں تعاون کے لیے تیار ہے، افغانستان میں جمہوریت قدم جمارہی ہے۔

اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات انتہائی اہم ہیں ، افغانستان کے ساتھ تجارت کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے، بھارت افغانستان کی مصنوعات کی ترسیل کیلئے کردار ادا کررہا ہے، علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں،انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے ، علاقائی ممالک کو سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

سشما سوراج نے کہا کہ افغانستان کو اہم داخلی مسائل کا سامنا ہے،حالیہ دنوں میں افغانستان میں دہشت گردی بڑھی ہے، افغانستان کو قبائل کے بجائے دہشت گردی سے خطرہ ہے،ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی ختم کرنا افغانستان کی ذمے داری ہے۔بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ 2016میں ہارٹ آف ایشیاکانفرنس کیلئے بھارت میں سب کاخیر مقدم کرینگے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سشما سوراج نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آئندہ سال سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان آئیں گے اور وہ بھی ان کے ہمراہ ہوں گے، ان کا کہنا تھا کہ خطے کے تمام ممالک کو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ،گزشتہ دنوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جو کہ تشویشناک ہے ۔