سپریم کورٹ،13 فوجیوں کو سزا کا فیصلہ کالعدم قرار، ہائیکورٹ کو میرٹ پر فیصلہ کرنیکی ہدایت،فیصلے میں بدنیتی‘ آئینی اختیار سے ہٹ کریا ملزم کو جج کے روبرو پیش کئے بغیر فیصلہ کیا گیا ہو تو ہائی کورٹ آرٹیکل 199(5) کے تحت جائزہ لے سکتی ہے ،فوجی عدالتیں طلاق‘حق شفعہ اور دیگر معاملات پر فیصلے دینے لگیں تو کیا اپیل نہیں سن سکتے کہ فیصلے فوجی عدالتوں کے ہیں،جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عظمت سعید کے ریمارکس

منگل 8 دسمبر 2015 09:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8دسمبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے 13 فوجیوں کو فوجی عدالت سے دی گئی سزائے موت اور عمر قید کی سزاؤں کے بارے میں ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے متعلقہ ہائی کورٹ کو ہدایت کی ہے کہ درخواستوں کو سن کر میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کسی فیصلے میں بدنیتی کا عنصر ہو‘ آئینی اختیار سے ہٹ کر فیصلہ کیا گیا ہو اور ملزم کو جج کے روبرو پیش کئے بغیر فیصلہ کیا گیا ہو تو ہائی کورٹ آرٹیکل 199(5) کے تحت جائزہ لے سکتی ہے اور میرٹ پر فیصلہ دے سکتی ہے۔

ان تین اصولوں میں کوئی بھی اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہو تو مداخلت کا اختیار رکھتے ہیں۔ کل کو اگر فوجی عدالتیں طلاق‘ حق شفعہ اور دیگر معاملات پر فیصلے دینے لگے جائیں تو کیا ہم ان کے خلاف محض اس لئے اپیل نہیں سن سکتے کہ یہ فیصلے فوجی عدالتوں کے ہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔

(جاری ہے)

اس طرح کے معاملات صرف مذکورہ عدالتوں کو سننے کا اختیار ہے۔ انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دیئے ہیں جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ پرویز اختر‘ فضل عظیم‘ گل اعجاز احمد‘ محمد عثمان‘ وحید احمد‘ مسلم میاں‘ آصف اقبال‘ اسماعیل رشید‘ محمد سہیل افضل‘ اصغر عمرزیب‘ محمد اعجاز‘ اقبال مسیح‘ ممتاز حسین کی ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت کی اس دوران ملزمان کی طرف کرنل (ر) ملک محمد اکرم پیش ہوئے اور انہوں نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے 21ویں ترمیم کے مقدمے میں اور چیف جسٹس محمود الرحمان کی جانب سے ضیاء الرحمان کے مقدمے میں جو فیصلہ دیا تھا اس کے خلاف تاحال کوئی اور فیصلہ نہیں آیا آئین میں طے شدہ 3 اصولوں بدنیتی‘ ملزم کی غیر موجودگی میں فیصلہ اور اختیار سماعت سے باہر معاملات کے بارے میں فیصلہ دیا تھا کہ اگر ان میں سے کسی بھی اصول کی خلاف ورزی کی گئی ہو تو چاہے فوجی عدالت سے سزاء پانے والے فوجی ہوں یا سویلین سب کے معاملات کا ہائی کورٹ جائزہ لے سکتی ہے اور میرٹ پر فیصلہ کر سکتی ہے جبکہ ان کے موکلان کے مقدمات میں ہائی کورٹ نے میرٹ کو چھوا تک نہیں اور درخواستیں خارج کر دیں۔

ہائی کورٹ محض اس وقت مداخلت نہیں کر سکتی جب ابھی کورٹ مارشل کی کارروائی جاری ہو اگر اس کا فیصلہ آجائے تو اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔ اس دوران عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار سے پوچھا کہ ان تین اصولوں کے حوالے سے اگر محمود الرحمان کے فیصلے کے خلاف کوئی اور فیصلہ آیا ہو تو بتا دیں۔ اس پر رانا وقار نے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ موجود نہیں ہے۔

فوجی افراد کے مقدمات میں ہائی کورٹ کو اختیار نہیں ہے تاہم سویلین کے معاملات کا جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کے دلائل کمزور ہیں اگر کچھ دلائل کمزور ہوں تو اچھے دلائل کو بھی خراب کر دیتے ہیں کرنل (ر) اکرم ایڈووکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل 199(3) اور 199(5) میں تعریف بتائی گئی ہے میرٹ پر فیصلہ کیا جاتا تو معاملات مختلف ہوتے تو اس پر عدالت نے کہا کہ ہم یہ فیصلے دے رہے ہیں ہائی کورٹ میرٹ پر فیصلہ کرے بابر اعوان کے 3 مقدمات میں چونکہ وہ اس وقت موجود نہیں ہیں لہذا اس کا فیصلہ نہیں کر رہے ہیں اور وہ مقدمات جن میں ہائی کورٹ نے میرٹ کا جائزہ لیا ہے ان کی الگ سے سماعت کریں گے۔ بعد ازاں عدالت نے درخواست نمٹا دی اور ہائی کورٹ کو میرٹ پر فیصلہ دینے کی ہدایت کی ہے۔