کچی آبادیاں گرانے کیخلاف حکم امتناعی برقرار، غریب،متوسط طبقے کیلئے رہائشی سکیمیں،سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبوں سے رپورٹ طلب کر لی، 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق صوبوں میں قانون سازی نہیں کر سکتا ، صوبے قرار دادیں منظور کریں،وفاق ملک بھر کیلئے یکساں قانون بنائے،اٹارنی جنرل،صوبائی،وفاقی سیکرٹریزہاؤسنگ، خزانہ اگلی سماعت پر ہاؤسنگ سکیموں کے پر رپورٹس پیش کریں،سپریم کورٹ کا حکم، کاجو کھانے، منرل واٹر اور الائچی والی چائے پی کر میٹنگ سے کچھ نہیں ہو گا، عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے،جسٹس دوست محمد خان

جمعہ 4 دسمبر 2015 09:47

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4دسمبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے کچی آبادیوں کو گرانے کے خلاف حکم امتناعی برقرار رکھتے ہوئے ملک بھر میں غریب ، متوسط اور ضرورت مندوں کے لئے کم قیمت اور مفت رہائشی سکیم بنانے اور آرٹیکل 9 اور 14 پر عملدرآمد کے بارے میں وفاق اور صوبوں سے جامع پالیسی بارے رپورٹس طلب کر لیں ۔ 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق صوبوں میں قانون سازی نہیں کر سکتا ۔

صوبے قرار دادیں منظور کریں اور وفاق اس بارے ملک بھر کے لئے یکساں قانون بنائے ۔ اٹارنی جنرل پاکستان ، چاروں صوبائی اور وفاقی سیکرٹری برائے ہاؤسنگ اور خزانہ اگلی سماعت پر پیش ہوں اور ہاؤسنگ سکیموں کے قابل عمل ہونے بارے اپنی رپورٹس عدالت میں پش کریں ۔دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ صرف کاجو کھانے ، منرل واٹر اور الائچی والی چائے پی کر میٹنگ سے کچھ نہیں ہو گا وفاق اور صوبوں کو عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

(جاری ہے)

ریاست عدالتی احکامات پر عمل کو یقینی بنائے ۔ وزراء کی فوج ظفر موج اگر ادھر ادھر کے غیر ضروری دوروں کی بجائے غریب لوگوں کو سستی چھت کی فراہمی کے لئے ڈونرز سے رابطے کریں تو ہر سال سیلاب کے بعد امدادی اور بحالی کی سرگرمیوں کے لئے در در جانے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔انہوں نے مزید کہا کہ پورے ملک میں اس بارے ایک اتھارٹی ہونی چاہئے جو ان اقدامات کی مانیٹرنگ کرے ۔

خصوصی ماہرین تکنیکی اور قانونی معاونت فراہم کرنے والے ہوں تو کیوں غریبوں کا بھلا نہیں ہو گا ۔ دریاؤں کے کناروں پر آباد ہونے والے لوگوں کو مکانات دیئے جائیں تو ہر سال ہزاروں زندگیوں اور دیگر نقصانات نہیں اٹھانا پڑیں گے ۔ بھارت پانی چھوڑ دیتا ہے تو ہم اس کو نہیں سنبھال سکتے ۔ کچی آبادیوں سے ووٹ لے کر لوگ چیئرمین اور کونسلرز تو بن گئے ہیں مگر ان لوگوں کو چھت آج بھی نہیں مل سکی ۔

اگر کچی آبادیوں کو ووٹ کا حق ہے تو چھت کا کیوں نہیں ؟ پچھلے 25 سے 30 سالوں میں شہری علاقوں میں کمرشل سرگرمیاں جاری ہیں قانون سازی کی انتہائی ضرورت ہے پارکنگ انکلیو ، ہیون گارڈن اور نجانے کیا کیا سکیمیں بن رہی ہیں جن کو دیکھنے کے بعد لگتا ہے کہ ملک بھر میں کہیں بھی کوئی غریب نہیں ہے ۔ اگر یہ غریب لوگ بھگا دیئے تو امراء کی بیگمات کے کام کون کرے گا ؟ فیکٹریوں نے آج تک عام ورکروں کے لئے رہائشی سہولیات فراہم تک نہیں کیں دکھ کی بات یہ ہے کہ اگست سے ہدایات دے رہے ہیں اور ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا گیا کوئی غلط فہمی میں نہ رہے یہ کام کرا کر دم لیں گے ۔

ہم نے آئین و قانون کے مطابق آرڈر کر دیئے تو پھر حکومتوں کے لئے مشکل ہو جائے گی ہر صوبے کے اپنے معروضی حالات ہیں بہت سے علاقے فالٹ لائن پر موجود ہیں ۔ ریلیف اور بحالی پر ہر سال اربوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں مگر عملی اقدامات کر کے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے یہ کام حکومتوں کے کرنے کے تھے جو اب ہمیں کرنا پڑ رہے ہیں موجودہ رپورٹس محض عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ۔

پچھلے چار ماہ سے صوبوں نے کوئی ٹھوس تجاویز تک نہیں دی ہیں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ زرعی اراضی پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنا کر زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے ۔ رپورٹس مسترد کرتے ہیں ان رپورٹس میں محض شہری اور دیہاتی آبادیوں کے اعداد و شمار کے کچھ بھی نہیں ہے کچی آبادیوں کو ختم نہیں ہونا چاہئے بلکہ کوشش ہونی چاہئے کہ نئی آبادیاں نہ بن سکیں لوگوں کو مفت اور سستے گھر دیئے جانے چاہئیں ۔

95 فیصد آبادی اپنا گھر بنانے کی طاقت نہیں رکھتی ۔ پہلے کچی آبادیاں بننے دی جاتی ہیں پھر ان کو ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں ذمہ دار افسران کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ حکومتیں سنجیدہ نہیں ہیں جمعرات کو سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر الرحمان اور دیگر صوبائی لاء افسران نے رپورٹس پیش کیں عامر الرحمان نے بتایا کہ ایک روز قبل وفاقی سیکرٹری ہاؤسنگ نے اجلاس بلایا تھا اور صوبائی حکام نے بھی اس میں شرکت کی ہے لائحہ عمل تیار کیا جا رہا ہے ۔

اس رپورٹ پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا کہ جب عدالت میں سماعت کی تاریخ قریب آتی ہے آپ اجلاس بلا لیتے ہیں اب تک کوئی لائحہ عمل کیوں وضع نہیں کیا گیا ہے حکومتوں کو وقت اور موقع دے رہے ہیں کہ وہ عدالتی احکامات پر قانون کے مطابق عملدرآمد یقینی بنائے بصورت دیگر حتمی حکم جاری کر دیں گے صوبوں نے بھی رپورٹس پیش کیں جنہیں عدالت نے نامکمل قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت سردیوں کی تعطیلات کے بعد جنوری 2016 میں کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی اور حکم جاری کیا ہے کہ غریب اور ضرورت مند لوگوں کے لئے ہاؤسنگ اسکیموں بارے رپورٹ دی جائیں ۔ عدالت نے کچی آبادیوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے حکم امتناعی بھی برقرار رکھا ہے ۔

متعلقہ عنوان :