سینٹ فنکشنل کمیٹی کا وزیر قانون،سیکرٹری قانون کی عدم حاضری پر اظہار برہمی ، کمیٹی کاسندھ اور دیگر علاقوں میں اقلیتوں کے ساتھ زیادتیوں پر اظہارافسوس،موثر قانون سازی پر زور،توہین رسالت قانون کا غلط استعمال روکنے کی ہدایت،اجلاس میں سپریم کورٹ کے توہین رسالت فیصلے پر انسانی حقوق وزارت کی بریفنگ،ہندو کمیونٹی میں زبردستی مذہب تبدیلی اور شادی پر تفصیلی بحث

جمعرات 26 نومبر 2015 09:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔26نومبر۔2015ء ) سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے سندھ اور دیگر علاقوں میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کیلئے موثر قانون سازی پر زور دیا ہے ،کمیٹی نے توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے اور کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون ، سیکرٹری قانون کی عدم موجودگی پر سخت برہمی کا اظہا رکرتے ہوئے کمیٹی کے اراکین نے کہا کہ وفاقی وزیر قانون اور سیکرٹری کی غیر موجودگی مکمل غیر سنجیدگی او رغیر ذمہ داری کا ثبوت ہے ، اجلاس میں سپریم کورٹ کی طرف سے توہین رسالت بارے دیئے گئے فیصلے کے بارے میں انسانی حقوق وزارت کی طرف سے بریفنگ دی گئی اور ہندو کمیونٹی میں زبردستی مذہب تبدیلی اور شادی کے بارے میں تفصیلی بحث ہوئی ۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلاس چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں منعقد ہو ا جس میں سینیٹ میں قائدایوان اعتزاز احسن ، کبیر احمد، ستارہ ایاز،ثمینہ عابد، مفتی عبدالستار، سحر کامران کے علاوہ مذہبی امور کے سینئر جوائنٹ سیکرٹری الیاس خان ،سولسٹر جنرل فرخ علی مغل کے علاوہ ہندو کونسل کے سربراہ ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

چیئر پرسن کمیٹی نسرین جلیل نے کہا کہ توہین رسالت قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے ذاتی دشمنیوں پر بھی مسلمان مسلمانوں کے خلاف قانون کا غلط استعمال کیا جاتا ہے اقلیتوں کو معتوب کیا جارہاہے سپریم کورٹ کے فیصلے میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ کسی بھی شہری کا زبردستی مذہب تبدیل نہیں کیا جاسکتا تمام شہری برابر کے حقوق رکھتے ہیں ۔پاکستان میں انصاف کا دوہرا معیار ہے مراعات یافتہ لوگوں کے لئے الگ اور عام لوگوں کے لئے الگ ، توہین رسالت کے قانون کو غلط استعمال روکنے کیلئے سفارشات ، تجویز کیلئے اجلاس منعقدکیا جارہاہے جھوٹا الزام اسلام کی روسے بھی غلط ہے ۔

سینیٹرکبیر احمد نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں ہر شہری برابر کو حق رکھتا ہے اور بتایا کہ بلو چستان میں اب بھی ایک رواج موجود ہے کہ مسلمان کے قتل پر ایک خون بہا اور ہندو کے قتل پر سات خون بہا ہیں ۔ چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیر قانون اور سیکرٹری قانون کو بریفنگ کے لئے موجود ہونا چاہیے تھا ایسا قانون بننا چاہیے جس سے مذہب باالجبر تبدیلی نہ ہو سکے ۔

اور کہا کہ اقلیتوں کی پاکستان کے لئے بے تحاشہ خدمات ہیں اور تجویز دی کہ اقلیت لفظ کی جگہ بہتر پاکستانی لکھا اور بولا جانا چاہیے نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیلئے پارلیمنٹ اخلاقی دباؤ رکھے اگلے اجلاس میں وزیر قانو ، سیکرٹری قانون ، وزیر مذہبی امور، سیکرٹری مذہبی امور ، سیکرٹری داخلہ کو بھی بریفنگ کیلئے طلب کیا جائے ۔اور کہا کہ زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے بارے میں بھی وزارت قانون سے مشاورت کی جائے ڈاکٹر رمیش کمار کے مسودے کا بھی جائزہ لیا جائے اور کہا ں کہاں قانون سازی کی ضرورت ہے اور کہا ں کہاں انتظامی حکم کی ضرورت ہے اس پر بھی بحث کی جانی چاہیے اور نیشنل ایکشن پلان کے حوالے الگ بریفنگ بھی لی جائے ۔

چیئرپرسن نسرین جلیل نے جہلم واقعے کے حوالے سے کہا کہ جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے پوری دنیا میں شرم سے سر جھک گئے ۔ذہنیت تبدیلی کی ضرورت ہے سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں اس طرح کے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔سینیٹر کبیر نے کہا کہ شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری اور ہماری ذمہ داری قانون سازی ہے ۔کمیٹی اجلاس میں خصوصی طور پر شرکت کرنے واہے ایم این اے اور ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ کسی بھی مذہب میں زبردستی مذہب تبدیلی کی اجازت نہیں سندھ میں ہندوؤں کے دباؤ کے ذریعے مذہب تبدیلی کے 38 واقعایات اور بلوچستان میں ایک واقعہ ہوا ہے اور کہا کہ میرے اوپر تین قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں 48 گھنٹے کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی کوئی مجرم گرفتار نہیں ہوا اب بھی دھمکیاں مل رہی ہیں ہندو میرج ایکٹ اسمبلی میں پیش کی وزارت قانون نے توڑ موڑ کر حلیہ بگاڑ دیا ہے سپریم کورٹ کے پاس 30دفعہ خود پیش ہو کراپنا مقدمہ لڑا اور کہا کہ سب سے زیادہ مسائل صوبہ خیبر پختونخوا میں ہیں سندھ میں بھی اقلیتوں کے ساتھ بہت زیادہ ظلم ہو رہا ہے ہند و ایکٹ میں بھی تبدیلیاں کر رہا ہوں اسلامی نظریاتی کونسل کو دو بار بریفنگ دے چکا ہوں18 سے کم عمر بچی کا مذہب تبدیل نہیں کیا جاسکتا شادی شدہ خاتون نکاح کے اوپر نکاح نہیں کرسکتی ہندو مذہب میں طلاق نہیں ہندو ایکٹ میں طلاق کا دورانیہ دو سال تجویز کیا ہے علماء بحث کے بعد اس پر راضی ہیں۔