زین قتل کیس،سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کیخلاف دائر اپیل کا ریکارڈ طلب کر لیا، کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو آئین اور قانون سے بالا تر نہیں ہو سکتا،انسداد دہشت گردی عدالت نے معاملات کا قانون کے مطابق جائزہ نہیں لیا ،جسٹس امیر ہانی مسلم کے ریما رکس ، ٹرائل کورٹ نے مقدمہ کی سماعت کے دوران پراسیکیوشن کو موقع ہی نہیں دیا ،فیصلہ انسداد دہشتگردی کے قانون کی شق 265کے تحت سنایا گیا،پراسیکیوٹر جنرل پنجاب،اے ایس آئی نے ملزمان اور گواہان کے درمیان عدالت کے اندر پیسے کا لین دین دیکھا،پراسیکیوٹر جنرل، ملزمان کو عدالت میں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا،سپریم کورٹ، بااثر لوگوں سے نہیں لڑ سکتی‘ میں کیا کروں میرے بس میں کچھ نہیں اس لئے اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے بیٹے کے قتل کو برداشت کیا ، زین کی والدہ کا عدالت میں بیان ریکا رڈ

منگل 17 نومبر 2015 08:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17نومبر۔2015ء )سپریم کورٹ میں زین قتل کیس میں پنجاب حکومت کی جانب سے ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کیخلاف دائر اپیل کا ریکارڈ طلب کر لیا۔جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے زین قتل کیس از خود نوٹس کیس کی سماعت کی،مقتول زین کی والدہ نے عدالت کے روبرو کہا کہ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو مر گیا،یہ اللہ کی رضا ہے اور اللہ کا فیصلہ سمجھ کر ہی اسے قبول کر لیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ان کی دو بیٹیاں ہیں، وہ خود کو کمزور تصور کرتی ہیں، ملزمان کے ساتھ اکیلی نہیں لڑ سکتیں،جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں،آپ کو کوئی پولیس والا تنگ نہیں کرے گا، آپ کو مقدمہ لڑنے کی ضرورت نہیں، یہ سرکار کا کام ہے، سرکار ہی ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی، کوئی کتنا ہی بڑا طاقتور کیوں نہ ہو، اسے انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے، اور مکمل انصاف کریں گے،دوران سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ جس انداز سے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے مقدمہ چلایا ہے،لگتا ہے کہ انصاف نہیں ہوا، بادی النظر میں یہ زیادتی ہے،عدالت نے مقتول زین کی والدہ سے استفسار کیا کہ کیا ان کا بھائی ان کی مرضی سے مقدمہ میں فریق بنا،جس پر مقتول زین کی والدہ نے کہا کہ نہیں وہ اپنی مرضی سے اس مقدمہ میں فریق بن گئے تھے۔

(جاری ہے)

جس مے بعد عدالت نے قرار دیا کہ ہم ان چیمبر زین کے لوحقین اور گواہان کے بیانات قلمبند کریں گے،چیمبر میں سماعت کے بعد دوبارہ عدالت میں کاروائی کا آغاز ہوا تو، حکومت پنجاب کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے مقدمہ کی سماعت کے دوران پراسیکیوشن کو موقع ہی نہیں دیا اور ٹرائل کورٹ نے فیصلہ انسداد دہشتگردی کے قانون کی شق 265کے تحت سنایا گیا ہے تاہم اس شق کے مطابق پراسیکیوشن کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر کا کہنا تھا کہ اس مقدمہ میں فیصلہ کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل لاہورہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر یہ معاملہ ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہے تو کیا سپریم کورٹ ہاتھ کھڑے کرلے تو پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اس معاملہ کو زیر التوا رکھا جاسکتا ہے۔جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ہی معاملہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہو۔

پراسیکویٹر جنرل نے کہا کہ صوبائی حکومت کے پاس منحرف گواہان کے بعد بھی پراسیکیوشن کے پاس ثبوت ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ منحرف گواہان عدالت میں ہی ملزمان کے ساتھ جاکر کھڑے ہوگئے تھے۔پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ اے ایس آئی محبوب عالم نے ملزمان اور گواہان کے درمیان عدالت کے اندر پیسے کا لین دین ہوتے دیکھا ہے۔جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ملزمان کو عدالت میں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا،پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ پہلے پولیس نے ایف آئی آر درج کی اس کے بعد گرفتار کرنا تھا تاہم تمام گواہان نے ضمانت کروا لی ہے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ پولیس کو پہلے ملزمان کو گرفتار کرنا چاہیئے تھااس کے بعد ایف آئی آر کاٹنی چاہیئے تھی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کی اپیل پر نوٹس جاری کئے ہیں تو پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ اپیل ابھی ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوئی۔جس پر عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کیخلاف دائر اپیل کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے قرار دیا کہ آج ہی ریکارڈ منگوا کر جمع کروایا جائے جس کے بعد عدالت حکم جاری کرے گی۔عدالت نے پنجاب پولیس کو بھی حکم دیا کہ پنجاب پولیس مقتول زین کی والدہ اور بہنوں کو باحفاظت ان کے گھر پہنچائے۔