رائے ونڈ، منہدم فیکٹری سے ملبہ ہٹانے کاکام جاری ،مزیدکئی روز بھی لگ سکتے ہیں

جمعہ 6 نومبر 2015 09:29

رائے ونڈ (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6نومبر۔2015ء) سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں گزشتہ روز منہدم ہونے والے ایکٹر پر پھیلی فیکٹری سے ملبہ ہٹانے کاکام ابھی تک شروع ہے ،جس کو ختم ہونے میں مزیدکئی روز بھی لگ سکتے ہیں۔پاک آرمی ،ریسکیو 1122،ایدھی ،سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ،اقبال ٹاؤن اور سندر انڈسٹریل اسٹیٹ کا سینکڑوں افراد پر مشتمل عملہ رات دن دوشفٹوں میں لگاتار کام میں مصروف ہے ۔

سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں قیامت صغریٰ کے مناظر، تین منزلہ عمارت زمین بوس ہونے سے اب تک ریسکیو ٹیموں نے 140افراد کو زندہ نکال لیا ہے جبکہ 20افراد کی نعشوں کو بھی نکالا جا چکا ہے ریسکیو کی ٹیموں نے ملبے تلے دبے مزدوروں کو نکالنے کے لئے دن رات ایک کردیا ہے۔ پاک آرمی کے150 جوان بھی اپنے انجینئر وں کی مدد سے مہارت کے ساتھ ملبے کو ہٹارہے ہیں تاکہ مزدوروں کو ملبے تلے سے زندہ نکالا جا سکے۔

(جاری ہے)

پاک آرمی کے جوان جدید آلات سے ساؤنڈ کے ذریعے ملبے تلے موجود مزدوروں کو تلاش کر کے نکال رہے ہیں ،کئی گھنٹے سے مسلسل ریسکیو کی ٹیمیں زخمیوں کو نکالنے میں مصروف عمل ہیں اور یہ عمل بڑی تیزی سے جاری ہے۔ تا کہ جلد از جلد زخمیوں کو نکالا جا سکے مگرافسوس ناک بات یہ ہے کہ پہلی اور دوسری منزل میں کام کام کرنے والے مزدور ابھی تک ملبے تلے دبے ہوئے ہیں ریسکیو کی ٹیمیں اور پاک آرمی کے جوان ہیوی مشینری کے ساتھ ملبا ہٹا میں مصروف ہیں دوسری طرف ملبے تلے دب جانے والے مزدوروں کے ورثاء حادثے کے بعد سے وہاں پر موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگ رہے ہیں کسی کا بیٹا نہیں مل رہا تو کسی کا بھائی اورکوئی اپنے خاوند کو تلاش کررہی ہے تو کوئی باپ کو ہر طرف قیامت صغرا پرپا ہوئی نظر آتی ہے ۔

تفصیلات کے مطابق فیکٹری گرنے کی جوجو وجوہات ملی ہیں ان کے مطابق پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے دور حکومت میں شور زدہ اور سیم زدہ بنجر زمین کو کوڑیوں کے بھاؤ خریدا گیا ،یہ زمین سیلاب زدہ تھی اور وہاں کے مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ یہاں پر کسی کا ایک ٹپا مارنے پر نیچے سے پانی نکل آتا تھا ۔حکومت وقت نے مقامی زمینداروں کو ڈرادھمکا کر اور کسی کو لالچ دیکر یہ سینکڑوں ایکٹر زمین خرید لی جس پر سندر انڈسٹریل اسٹیٹ قائم کی گئی ،انجینئرز کے مطابق یہ زمین تعمیر کے قابل ہی نہیں تھی ۔

جبکہ جہاں یہ فیکٹری زمین بوس ہوئی ہے اس کے ساتھ ہی پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹ کا دفتر واقع ہے جس کے بارے میں کافی لوگوں نے نام نہ لکھنے کی شرط پر بتایا کہ یہاں کی انتظامیہ میں کچھ افسر انتہائی کرپٹ ہیں ۔جو بھاری رشوت کے عوض کسی کو بھی قواعد و ضوابط کے خلاف تعمیر کی اجازت دے دیتے ہیں ۔یہاں پر جعلی سیمنٹ اور ناقص سریا وغیرہ استعمال کرنے کا بھی کوئی چیک اینڈ بیلنس سسٹم نہیں۔

اس فیکٹری سمیت یہاں تقریباً اکثر فیکٹریوں میں لیبر قوانین کی شدید دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ۔کئی سو مزدوروں کے ای او آئی بی کارڈ بھی نہیں بنے ہوئے۔سب مجبور اور محبوس ہوکر کام کرتے ہیں جیسے قدرت کی طرف سے سزا ملی ہو ۔فیکٹری میں جاں بحق ہونے والے زیادہ تر بچے کم عمروں کے اور غیر مقامی ہیں جو غربت کے باعث معمولی تنخواہ میں گزاراکرنے پر مجبور ہوتے ہیں ،والدین خوف زدہ ماحول میں کسی کو کچھ شکائت بھی نہیں کرسکتے ،سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں جنگل کا قانون ہے ایک طرح کی یہ سب جیل ہے ،یہاں میڈیا کو آنے کی اجازت نہیں ۔

پچھلے تین ماہ پہلے ایک میڈیا پرسن نے اپنے طور پر حادثے کا شکار فیکٹری کی حالت دیکھ کر مالک سے اس کے کسی بھی وقت گرنے کا خدشہ ظاہر کیا تھا لیکن اسے بھی پیسے دیکر چپ کرانے کی کوشش کی گئی ۔یہاں انتہائی بااثر انتظامیہ ہے جس کے کان پر کبھی جوں نہیں رینگتی ۔شریف میڈیکل سٹی میں گزشتہ روز جب زخمیوں کو لیجایا گیا تو وہاں کی انتظامیہ نے بھی روائتی سلوک کیا لیکن جب بات وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے نوٹس میں آئی تو انہوں نے ہسپتال کی انتظامیہ کو کئی کمرے کھولنے کی ہدائت کی اور علاج معالجہ مفت کرنے کا حکم دیدیا بعد ازاں وہ جائے حادثہ پر جانے کے بعد یہاں پر زخمیوں کی عیادت کرنے اور تازہ حالات معلوم کرنے بھی پہنچے جس کے بعد شریف میڈیکل سٹی کی انتظامیہ ایم ایس سمیت حرکت میں آچکی ہے اور ابھی تک خدمات فراہم کررہی ہے ۔

شریف میڈیکل سٹی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ امجد برق نے بتایا کہ وہ خود تمام حالات کا متواتر جائزہ لے رہے ہیں ۔اور جو ادویار ہسپتال میں موجود نہیں انہیں باہر سے خرید کر استعمال میں لایا جارہا ہے ابھی تک کئی زخمیوں کے آپریشن کئے جاچکے ہیں ،انہوں نے بتایا کہ ای ڈی او ہیلتھ ذوالفقار چودھری ،وزیر صحت خواجہ سلیمان رفیق ، رانا مشہود اور ایم این اے ملک محمد افضل کھوکھر بار بار یہاں آرہے ہیں ۔

ہسپتال میں زیر علاج ایک زخمی بچے راحیل احمد ساکن بھائیکوٹ جس کی عمر16سال ہے نے بتایا کہ فیکٹری میں دوشفٹوں میں کام ہوتا ہے ابھی پہلی شفٹ چل رہی تھی اوردوسری بھی آگئی تھی تقریباً 4-50کا وقت تھا جب بلڈنگ ان پر آگری وہ پریس کی آڑ لیکر مرنے سے بچ گیا لیکن اس کا بازو ٹوٹ گیا ہے ،اس نے بتایا کہ یہ فیکٹری کئی ایکٹر پر پھیلی ہوئی ہے ۔اس میں ملازمین کے کوارٹرز اور کینٹین بھی موجود ہے جو کہ سب کی سب زمین بوس ہوگئی ۔

اس نے بتایا کہ یہاں پر پلاسٹک کے بڑے تھیلے بنتے ہیں جو کہ مختلف کھاد کمپنیاں ،فیڈز بنانے والے چینی ،چوکر اور ٹیکسٹائل کا کاروبار کرنے والے آرڈر پر بنواتے ہیں ،پانچ سال سے یہ فیکٹری قائم ہے ۔روزانہ تقریباً25ہزار تھیلوں کی پروڈکشن ہے ۔فی مزدور تنخواہ 10ہزار ملتی ہے ۔کھاتہ منیجر کا نام محمد انور اور ٹھیکیدار کا نام مصطفےٰ ہے ،مجموعی طور پر یہاں چار سو کے لگ بھگ افراد موجود ہوتے ہیں اور حادثہ کے وقت بھی تقریباً یہی تعداد تھی ۔

فیکٹری میں پریس پلانٹ آٹو سمیت دیگر مشینری 64آئٹم ہیں ۔تین ایکٹر پر محیط فیکٹری کے ایک فلور تقریباً ایک ایکٹر پر پھیلا ہوا ہے جس میں باریک سرئے کے 24پلر کھڑے ہوتے ہیں ۔جو تین لینٹروں کو سنبھالنے کی سکت نہیں رکھتے ،اس نے بتایا کہ جب پچھلے دنوں زلزلے کے جھٹکے لگے دوبار تو بلڈنگ لزر گئی تھی جس پر تمام ورکروں نے مالک رانا شرافت ساکن ماڈل ٹاؤن لاہور سے احتجاج بھی کیا تھا کہ انہیں موت کے سپرد نہ کریں لیکن فیکٹری مالک نے بات ان سنی کردی بلکہ چوتھی منزل پر رہائشی کوارٹروں کی تعمیر شروع کروادی ۔

بچے کے والد ذوالفقار علی راجپوت منج نے بتایا کہ غربت کی وجہ سے سب غم سہتے ہیں ،کیا کرسکتے ہیں کون سننے والا ہے ،ہر کئی تو آرمی کا ریٹائرڈ ہونے کا تعارف کرواتا ہے ۔شریف میڈیکل سٹی کے ایک ذمہ دار حبیب اور خالد جاوید اور ڈیڈ ہاؤس کے آپریٹر محمد ارشاد نے بتایا کہ یہاں پر ٹوٹل 8ڈیڈ بادیاں لائی گئی تھیں جن میں سے 6کو ان کے ورثاء کے حوالے کردیا گیا اور دو ابھی تک مردہ خانے کے فریزر میں پڑی ہیں جن میں سے ایک کا نام ضیغم عمر تقریباً 21سال ساکن خانیوال جبکہ دوسری نعش غلام عباس عمر 16سال ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ہے ۔

جبکہ 29زخمی ہسپتال میں ایڈمٹ ہیں۔انہوں نے بتایا ہ ڈی ڈی ایچ او اختر گجر بھی گاہے بگاہے چکر لگا رہیں ۔ادھر جائے وقوعہ پر ریسکیو آپریشن جاری ہے ۔گزشتہ روز 50سے زائد زخمیوں کو ملبے تلے سے زخمی حالت میں نکال لیا گیا دو بچے زندہ حالت میں نکالے گئے ہیں ۔اب تک تقریباً 25ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ ملبے تلے ابھی تک بھی سینکڑوں مزدور دبے ہوئے ہیں جن کی آوازیں آناتقریباً بند ہورہی ہیں ۔

حادثہ کو گزرے 30گھنٹے گزر چکے ہیں اگلے چوبیس گھنٹے خطرناک ہیں ۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ آرمی سمیت ریسکیو آپریشن کی رفتار سست ہے کبھی کھانا کھانے بیٹھ جاتے ہیں تھک جاتے ہیں اور نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ہمارے پیارے زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں یہاں ہر محکمہ کو کارکردگی بنانے کی پڑی ہے ،لوگوں نے سست اور غفلت نما ریسکیو آپریشن پر نعرے بازی کی تو پولیس کے ذریعے لوگوں کو خاموش کروانے کے ساتھ رفتار تیز ہوگئی ہے ۔

ریسکیو 1122کی سربراہ بریگیڈئر ڈاکٹر ارشد ضیا کررہے ہیں ،اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ دوشفٹوں مین ڈیوٹی دے رہے ہیں ۔جبکہ آرمی کے جوانوں نے کہا کہ وہ لگاتار بغیر سوئے کام کررہے ہیں تقریباً 200جوان موجود ہیں ،ہیوی مشینری4 ڈوزر وں سے ملبہ ةتانے کا کام شروع ہے ۔ایدھی والوں کا عملہ بھی درجنوں گاڑیاں لئے چاک و چابند کھڑا ہے ،ادھر مقامی ادارے فلاح انسانیت اور کوشش ویلفیئر کی ایمبولینس بھی موجود ہیں ۔

ایدھی کے انچارج محمد انور نے بتایا کہ وہ اپنے ساتھ پانی کی 200 بوتلیں لیکر آئے ہیں جو کہ ملبے تلے پھنسے لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پلارہے ہیں ۔آخر میں اقبال ٹاؤن انتظامیہ کے انچارج چیف آفیر رائے ونڈ یونٹ ریاض گجر نے بتایا کہ انہوں نے اپنے عملہ سمیت یہاں پر کیمپ لگایا ہوا ہے ،یہاں پر لائٹس لا انتظام اقبال ٹاؤن کی طرف سے کیا گیا ہے ،ریسکیو آپریشن میں شامل تمام افراد کو پانی اور کھانا ہماری طرف سے دیا جا رہا ہے ،لوگوں کا ایک ہجوم موقع پر موجود ہے اور زیادہ تر افراد اپنے موبائیل سے موویز بنارہے ہیں ۔ادھر کسی تھانہ میں حادثہ کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی

متعلقہ عنوان :