گیس کمپنیوں کے نقصانات کا بوجھ صارفین پر نہ ڈالا جائے،پبلک اکاؤنٹس کمیٹی، سالانہ55 ارب کی گیس چوری ہوتی ہے، قلات کوئٹہ میں نقصان 92فیصد ہے،گیس کمپنیوں کے حکام کی پی اے سی کو بریفنگ، امریکہ کے ساتھ مل کر گیس چوری کی حد مقرر کرینگے،فکس بلنگ کا نظام وضع کرنے کی تجویز ہے،چیئرمین اوگرا کا انکشاف

بدھ 4 نومبر 2015 09:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4نومبر۔2015ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے چیئرمین اوگرا کو حکم دیا ہے کہ گیس چوری کی حد مقرر کی جائے اور گیس کمپنیوں کے نقصانات کا بوجھ گیس صارفین پر ہرگز نہ ڈالا جائے ۔ پی اے سی کا اجلاس خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا جس میں شفقت محمود نے عارف علوی ، میاں منان جاوید اخلاص ، روحیل اصغر شیخ ، عاشق گوپانگ اور نوید قمر نے شرکت کی ۔

(جاری ہے)

اجلاس میں وزارت پٹرولیم کے مالی سال 2010-11ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا اجلاس میں سوئی ناردرن گیس کمپنی کے ایم ڈی عظمیٰ عادل نے بتایا کہ کمپنی میں سالانہ گیس چوری کی شرح گیارہ فیصد ہے اور سالانہ پچیس ارب روپے کی گیس چوری ہوتی ہے جبکہ سوئی سدرن کے ایم ڈی نے اجلاس میں انکشاف کیا ہے کہ گیس کمپنی میں سالانہ چوری پندرہ فیصد ہے اور تیس ارب روپے کی گیس چوری ہوتی ہے ایم ڈی نے مزید انکشاف کیا کہ قلات کوئٹہ گیس پائپ لائن کے لاسز بانوے فیصد ہیں دونوں گیس کمپنیوں نے بتایا کہ اوگرا نے انہیں ساڑھے پانچ فیصد یو ایف جی کی اجازت لے رکھی ہے اجلاس کو بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں گیس صارفین کا اضافہ ہورہا ہے جبکہ نقصانات بھی زیادہ بلوچستان میں ہیں جس کی وجہ امن وامان، پرانا گیس پائپ لائن سسٹم ، گیس چوری اور قانون کی حکمرانی میں نہ ہونا ہے چیئرمین اوگرا نے بتایا کہ امریکی ادارہ یو ایس ایڈ کے ساتھ مل کر یو ایف جی کی حد مقرر کرنے کے بارے میں تحقیق کررہے یں اور یہ تحقیق چار ماہ کے اندر اندر مکمل کرلی جائے گی اور بتایا گیا کہ گیس چوری روکنے کے لئے فکس بلنگ کا نظام وضع کرنے کی بھی تجویز ہے پی اے سی نے بتایا کہ سابقہ دور حکومت میں یو ایف جی سات فیصد کرنے اور پھر پانچ فیصد کرنے کے بعد عدالتی فیصلہ کا فائدہ گیس صارفین کو ملنا چاہیے پی اے سی کو بتایا کہ صوبائی حکومتوں نے 93ارب روپے واپڈا کو ادا نہیں کئے اس لئے جی ایس ڈی کے آڈٹ اعتراضات ختم نہیں ہوسکے