کارگل جنگ اسٹریٹجک اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کرنے کی بہترین مثال ہے لیکن فوجی فتح کو سیاسی شکست میں تبدیل کردیا گیا تھا،پرویز مشرف، فوج بھارت کے ساتھ امن چاہتی ہے لیکن عزت اور وقار کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات حل کرنا چاہتی ہے،خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب

منگل 3 نومبر 2015 09:48

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3نومبر۔2015ء) سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ کارگل کی جنگ اسٹریٹجک اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کرنے کی بہترین مثال ہے لیکن فوجی فتح کو سیاسی شکست میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ فوج بھارت کے ساتھ امن چاہتی ہے لیکن عزت اور وقار کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات حل کرنا چاہتی ہے۔ وہ پیر کو سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب ”Neither a Hawk nor a Dove“ (نہ عقاب نہ فاختہ) کی مقامی ہوٹل میں تقریب رونمائی سے خطاب کررہے تھے۔

تقریب سے بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر، بھارت کے سینئر سیاستدان، سابق وزیر اور دانشورمانی شنکر آئر اور بھارت میں خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی کرانے والے اور آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے سربراہ سدھ نیندرا کلکرنی نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

تقریب کے شرکاء نے کلکرنی کا پرتپاک استقبال کیا۔ جب وہ اسٹیج پر آئے تو تقریب کے شرکاء نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا اور کافی دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔

کلکرنی کو اس وجہ سے شہرت ملی تھی کہ بھارت میں شیوسینا کے شرپسندوں نے ان کے منہ پر کالا رنگ مل دیا تھا اور انہوں نے اسی حالت میں کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کی تھی۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے خطاب میں کہا کہ میرے دور حکومت میں پاک بھارت تعلقات بہتر تھے، ہم تمام تنازعات کے حل کے قریب پہنچ چکے تھے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔

سرکریک، سیاچن اور کشمیر سمیت تمام تنازعات کا حل تلاش کرلیا گیا تھا۔ سرکریک میں متنازعہ علاقوں کی حد بندی کردی گئی تھی۔ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے 4 نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہوچکا تھا۔ یعنی لائن آف کنٹرول پر فوجوں کی تعیناتی میں بتدریج کمی کی جائے۔ کشمیر میں حکومت کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے۔ پاک بھارت نگرانی کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔

کشمیریوں کی آزادانہ نقل وحمل کے لئے 6 روٹس کھول کر لائن آف کنٹرول کو غیر متعلق بنادیا جائے۔ ان چار نکات سے مسئلہ کشمیر حل ہوجاتا۔ 2006ء میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو پاکستان آنا تھا لیکن وہ باوجوہ نہ آسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ناکام کیوں ہوئے، اس حوالے سے میں نے 2 سبق سیکھے ہیں۔ پہلا سبق یہ ہے کہ مواقع آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

لیڈر شپ کو ان مواقعوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ دونوں طرف سے لچک دار رویہ اور اخلاص ہو اور فریقین کچھ لو اور کچھ دو کے لئے تیار ہوں۔ اس حوالے سے فیصلہ کرنے کے لئے جرأت چاہئے۔ وزیراعظم واجپائی اور من موہن سنگھ تنازعات کو حل کرنے میں مخلص تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج بھارت کے ساتھ امن چاہتی ہے لیکن عزت اور وقار کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات حل کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے خورشید محمود قصوری کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب ہمارے دور کے خارجہ تعلقات کی حقیقی کوریج ہے اور خورشید محمود قصوری نے انتہائی دیانتداری اور جرأت سے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ جب میں نے انہیں وزیر خارجہ بنایا تھا تو میں نے ان سے پہلا سوال یہی کیا تھا کہ آپ بھارت کے معاملے پر عقاب بننا چاہیں گے یا فاختہ؟ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا تھا کہ نہ عقاب اور نہ فاختہ اور ہم نے اسی پالیسی پر عمل کیا۔

انہوں نے کہا کہ سرد جنگ کے خاتمے اور یونی پولر ورلڈ کے قیام کے بعد دنیا کی توجہ ہمارے خطے کی طرف ہوگئی۔ پاکستان خطے میں ایک ”کراس روڈ“پر واقع تھا۔ میرا دور حکومت پاکستان کی سیاسی تاریخ کا وہ دور تھا جب گڈ گورننس تھی۔ ہم سماجی اور اقتصادی طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے تھے اور امن وامان کی صورت حال بہتر تھی۔ اگر آپ داخلی طور پر مضبوط ہوں تو خارجی پالیسی کو تقویت ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خورشید محمود قصوری ایک موثر وزیر خارجہ تھے اور میری انہیں مکمل حمایت اور حوصلہ افزائی حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ خورشید قصوری کی آدھی سے زیادہ کتاب پاک بھارت تعلقات پر ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری اس معاملے پر کتنی توجہ تھی۔ انہوں نے پاک بھارت تنازعات کا دیانتدانہ تجزیہ کیا ہے۔ کتاب کے مصنف اور سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ مجھے شیوسینا نے دھمکیاں دیں کہ آپ بمبئی نہیں اتر سکتے لیکن میرے میزبان سدنیندراکلکرنی نے جرأت کا مظاہرہ کیا اور میں نے ان سے کہا کہ میں بھارت آرہا ہوں۔

مجھے آپ کے علاوہ اب کوئی نہیں روک سکتا۔ وہاں بھارت کی مرکزی حکومت اور مہاراشٹر کی حکومت نے مجھے سخت سیکورٹی دی۔ شیوسینا کے لوگوں نے کلکرنی کے چہرے پر کالا رنگ مل دیا اور وہ اسی طرح میری کتاب کی تقریب رونمائی میں آگئے۔ شو شینا کی دھمکیوں کے باوجود تقریب منعقد کی گئی۔ میڈیا نے بڑی تعداد میں شرکت کرکے کوریج دی۔کلکرنی سے کہا گیا کہ وہ چہرہ صاف کرکے تقریب میں بیٹھیں تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ مخالفین کے چہرے کالے ہونے تک وہ چہرہ صاف نہیں کریں گے۔

اس واقعے کی وجہ سے شیوسینا کو دنیا میں منفی کوریج ملی۔ اب وہ ایسا کرتے ہوئے کئی مرتبہ سوچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نئی دہلی میں میری کتاب کو بڑی پذیرائی ملی اور میں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں جو کچھ ہوا۔ اس کو معروضی انداز میں بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج بھارت سے دوستی کی مخالف نہیں ہے لیکن وہ برابری کی سطح پر اور منصفانہ طریقے سے کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل چاہتی ہے۔

متعلقہ عنوان :