، ماضی میں جن لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ، انکی شکایات اور نا انصافی کا ازالہ کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی، چیف جسٹس، بنچ اور با ر ا نصاف کی فراہمی کے دو اہم جُز ہیں،ا نصاف کی فراہمی نہ صرف عدلیہ بلکہ بار کی بھی اتنی ہی اہم ذمہ داری ہے،جب تک ایک فعال موجود نہیں ہو گی انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہو گی، جسٹس انور ظہیر جمالی کا اسلام آباد ہائی کورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی تقسیمِ سرٹیفیکیٹ تقریب سے خطاب

اتوار 1 نومبر 2015 10:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔1نومبر۔2015ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ماضی میں جن لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے ان کی شکایات اور نا انصافی کا ازالہ کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی، بنچ اور با ر ا نصاف کی فراہمی کے دو اہم جُز ہیں،ا نصاف کی فراہمی نہ صرف عدلیہ بلکہ بار کی بھی اتنی ہی اہم ذمہ داری ہے،جب تک ایک فعال اور اپ رائٹ بارموجود نہیں ہو گی انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہو گی۔

ان خیالات کا اظہان انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی تقسیمِ سرٹیفیکیٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں اپنے دل کی گہرائیوں سے اسلام آباد بار کونسل کا مشکور ہوں کہ انہوں نے آج کی اس تقریب میں مجھے بطور مہمانِ خصوصی مدعو کر کے مجھے اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی اور اپنے خیالات کے اظہارکا موقع بھی عطا کیا۔

(جاری ہے)

جیسا کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ بنچ اور بار ایک ہی سسٹم یعنی انصاف کی فراہمی کے دو اہم جُز ہیں جو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ عام طور پر سوسائٹی میں یہ تاثرلیا جاتا ہے کہ شاید انصاف کی فراہمی صرف عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ میں یہ بات یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ انصاف کی فراہمی نہ صرف عدلیہ بلکہ بار کی بھی اتنی ہی اہم ذمہ داری ہے اور جب تک ایک فعال اور upright بارموجود نہیں ہو گی انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہو گی۔

مجھ سے پہلے آنے والے مقررین نے جس خوش اسلوبی سے بار کے مسائل کے اوپر روشنی ڈالی ہے، میں اُس پے اُنہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ جیسا کہ آپ واقف ہیں اِن مسائل کی ایک طویل فہرست ہے لیکن ان مسائل کا جواب دینے سے پہلے جو بات میں آپ کو گوش گزار کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے یہ ایک continuing process ہے ۔ یعنی ایک جج آتا ہے چلا جاتا ہے مگر ادارہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔

اس صورتِ حال میں جس کا خاص طور پر مجھے تجربہ کرنا پڑا ہے وہ یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والی کوتاہیاں وہ بھی سب لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جیسا کہ تارڈ صاحب نے اپنی تقریر میں نشان دہی کی ، ماضی میں مجھے یہ کہتے ہوئے جھجک محسوس نہیں ہوئی۔ کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کوتاہیاں کسی بد نیتی پر مبنی تھیں۔

لیکن اس کا خمیازہ ضرور عدلیہ اور وکلاء صاحبان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جتنا جلد ممکن ہوا ان مسائل پر قابو پایا جا سکے گا۔ ماضی میں جن لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے ان کی شکایات اور نا انصافی کا ازالہ کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ اس کے لئے ایک بہت اہم جز ،جس کے لئے بار اور بینچ دونوں کو مشترکہ طور پر اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی وہ ہے خود احتسابی کا عمل ۔

جہاں تک اس سلسلے میں ہمارے کردار کا تعلق ہے تو میں یہ بتانے میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ اس وقت جتنی بھی عدالتِ عظمیٰ میں آرٹیکل 209 کے تحت درخواستیں زیر ِ التوا تھیں وہ سب ہم نے take up کر لی ہیں۔ لیکن ان میں سے تقریباً نوے فیصد درخواستیں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ غیر موثر ہو چکی ہیں۔ اس لئے ان کا disposal کر دیا گیا ہے اور باقی جو دس فیصد درخواستیں جن میں live issues موجود ہیں، وہ pipe lineمیں ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ عنقریب آنے والے وقت میں اُن کے اوپر موثر کارروائی کی جائے گی اور اس چیز کو ضروری بنایا جائے گا کہ ان درخواستوں کا ایک انتہائی دیانت دارانہ طریقے سے merit پے فیصلہ کیا جائے تا کہ لوگوں کی جائز شکایات ہیں ان کا ازالہ ممکن ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ میں توقع کرتا ہوں کہ اسی طرح بار کونسلز جو کے ایک statutory body ہیں وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے احتسابی کارروائی کے عمل کو تیز کریں گے اور یہ اس لئے بھی ضروری تا کہ ہمارے درمیان جو کالی بھیڑیں ہیں اُن کی نشاندہی ہو سکے اور ان کے خلاف موثر کارروائی کر کے ان کو اس معزز پیشے سے الگ کیا جا سکے تا کہ بہتری پیدا ہو سکے۔

میں اپنے تمام فاضل دوستوں سے یہ بات خاص طور پے کہنا چاہوں گا کہ وہ اس چیز کو محسوس کریں کہ وکالت کا پیشہ ایک انتہائی محترم اور با عزت پیشہ ہے جس کے بہت سارےrequirements ہیں ، moral valuesہیں، professional ethics ہیں ، اُن کا خاص طور پر احترام کریں اور یہ اس لئے ضروری ہے کہ بار اور کورٹ روم کا ماحول بہتر رکھا جا سکے ۔ ہمارے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر کسی جج کی کوئی کوتاہی ہے تو اُس کوتاہی کا جواب بھی اُسی طریقے سے دیا جائے ۔

اسی طرح اگر کسی وکیل کی کوئی کوتاہی ہے تو اُس کو نظر انداز کرنے کی بجائے اُس کے اوپر کوئی سخت کارروائی کی جائے۔ آنے والے وقتوں میں میں امید کرتا ہوں کہ جب ان راستوں پر عمل کیا جائے گا تو اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ میرے چیف جسٹس بننے کے بعد دو ماہ سے کم کے مختصر عرصے میں بینچ اور بار کے ماحول میں اور تعلقات میں کافی بہتری آئی ہے۔

اس کا کریڈٹ صرف عدلیہ کو نہیں جاتا بلکہ وکلاء حضرات اور بار کونسلز بھی اُس میں برابر کے شریک ہیں جنہوں نے اس چیز کو محسوس کیا ہے اور آئندہ بہتری کے لئے کاوشیں کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے آج کی اس تقریب میں شرکت کر کے خاص طور پر اس وجہ سے بھی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ یہاں آج سو سے زیادہ نئے enrolledوکلاء کو اُن کی وکالت کا لائسنس دیا جارہا ہے ۔

میں اُمید کرتا ہوں کہ آنے والے وکلاء میں سے ہی آئندہ وقت میں ماتحت عدالتوں ، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں جج فائز ہوں گے۔ ایک بات اور جس کا میں یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور اسلام آباد کی عدالتوں کا ایک مخصوصstatus ہے۔ کیونکہ یہ دارلخلافہ کے لئے قائم کی گئی عدالتیں ہیں اس لئے اس میں provision رکھا جا رہا ہے کہ دیگر صوبوں کی نمائندگی بھی ہو لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں کے مقامی وکلاء کی اس میں نمائندگی نہ ہواور میں امید کرتا ہوں کہ عنقریب جب کے آپ کے ہاں اسلام آباد ہائی کورٹ کی دو خالی اسامیوں کو پُر کیا جائے گا تو اس چیز کو خاص طور پر ذہن میں رکھا جائے گا ۔

اسی طرح جو آپ کے وائس چےئرمین اسلام آباد بار کونسل نے اور دیگر مقررین نے تجویز دی ہے کہ یہاں پے دوسرے صوبوں سے ماتحت عدلت میں ججز کو deputation پر بھیجا جائے اور لایا جائے تو یہ ایک انتہائی عمدہ مشورہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ کے چیف جسٹس صاحب پہلے ہی کام کر رہے ہیں اور انشاء اللہ عنقریب اس کو عملی جامع پہنایا جائے گا۔ جہاں تک اس میں سپریم کورٹ کے تعاون کا تعلق ہے توآپ کو میں یقین دلاتا ہوں کہ اس سلسلے میں آپ سپریم کورٹ کو کسی بھی طرح دوسرے ادارے سے پیچھے نہیں پائیں گے۔

مجھے آج کی اس تقریب میں شرکت کرتے ہوئے ایک اور چیز کی بھی بڑی خوشی ہے کہ میں نے یہاں آنے سے پہلے آج اسلام آباد بار کونسل کے آفس کا افتتاح کیا جو کہ ایک انتہائی مناسب جگہ ہے اور امید کرتا ہوں کہ اتنی خوبصورت بلڈنگ میں اتنے بامقصد آفس کی موجودگی میں اور آپ کے elected office bearers کی موجودگی میں اسلام آباد بار کونسل اپنی تمام قانونی ذمہ داریوں کو انتہائی احسن طریقے سے انجام دے گی۔

شعیب شاہین صاحب نے اپنی تقریر کے دوران سپریم کورٹ کے enrollments سے متعلق دو مسائل کا ذکر کیا جس میں سے پہلا تو یہ تھا کہ سپریم کورٹ میں enrollments کے سلسلے میں وکلاء کو کچھ تکلیف پیش آ رہی ہے کہ ان کے enrollments delay ہو رہے ہیں تواس سلسلے میں بتانا چاہوں گا کہ یہ کارروائی فوری طور پر شروع کر دی گئی ہے۔اس کے علاوہ میں شعیب شاہین اور دوسرے مقررین کی اِس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ دس سال کی جو شرط سپریم کورٹ میں enrollment کے لئے ہائی کورٹ کی پرایکٹس کی لگائی گئی ہے یہ مناسب نہیں ہے اور اس لئے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ already پاکستان بار کونسل نے اس سلسلے میں ایک proposal approve کر دیا ہے جو ہمارے پاس عنقریب پیش کیا جائے گا اور اب سپریم کورٹ میں enrollment کے لئے ہائی کورٹ کی وکالت کی مدت دس سال سے کم کر کے سات سال کیا جا رہا ہے۔

ان کاکہنا تھا کہ ایک بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ ایک general impression لیا جاتا ہے کہ عدلیہ systeme of dispensation of justice، جو نظامِ عدل ہمارے آئین پارٹ 7 کے تحت قائم کیا گیا ہے ، عدالت عظمیٰ کا اور عدالتِ عالیہ کا اور دیگر ماتحت عدالتوں کا اس کا ایک منفرد اور علیحدہ حصہ ہے۔ میری نظر میں یہ غلط فہمی کا ایک منظر ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بار اور بنچ دونوں ایک ہی سسٹم کا ایک حصہ ہیں اور یہ اسی چیز کی غمازی کرتا ہے کہ آج بھی عدالتِ عظمیٰ میں اور عدالتِ عالیہ میں اور ماتحت عدالتوں میںInvariablyتمام جو نمائندگی ہے وہ بار ہی کی طرف سے اوریہ بار ہی کے وکلاء ہیں جو کہ اپنی قابلیت اور محنت سے اس مقام پر پہنچتے ہیں۔

میں خود بھی پچیس سال وکالت کے پیشے سے منسلک رہا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میرا elevation ہائی کورٹ میں ہوا 1998میں۔ تو میں اُمید کرتا ہوں کہ آئندہ آنے والے وقتوں میں جو آج اتنے سارے چہرے میرے سامنے موجود ہیں، خاص طور پے اتنی ساری خواتین وکلاء صاحبہ بھی موجود ہیں یہ لوگ ہماری جگہ لیں گے اور اس سسٹم میں بہتری آئے گی۔ انہی نیک خواہشات کے ساتھ میں ایک بار پھر آپ سب صاحبان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے یہاں بلا کے خطاب کا موقع دیا۔

متعلقہ عنوان :