این اے 154 دھاندلی کیس ،صدیق خان طلب ، بہت محتاط ہیں کسی بھی شخص کو دھوکہ باز قرار دے کر ان کے خاندان کیلئے کلنک کا ٹیکہ بنانے سے قبل انصاف کے تمام تقاضے پورا کرنا چاہتے ہیں،عدالت ، عدالت نے کسی شخص کو دھوکے باز کا خطاب دے دیا تو یہ خاندان در خاندان چلے گا ،جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریمارکس

بدھ 28 اکتوبر 2015 09:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔28اکتوبر۔2015ء) سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 دھاندلی کیس میں صدیق خان کو طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت بہت محتاط ہے کسی بھی شخص کو دھوکہ باز قرار دے کر ان کے خاندان کیلئے کلنک کا ٹیکہ بنانے سے قبل انصاف کے تمام تقاضے پورا کرنا چاہتے ہیں۔ 3 رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس میاں ثاقب نثار کا مزید کہنا تھا کہ اگر عدالت نے کسی شخص کو دھوکے باز کا خطاب دے دیا تو یہ خاندان در خاندان چلے گا ۔

درخواست گزار صدیق خان بلوچ نے اپنی سند کی حقانیت کیلئے بورڈ اور یونیورسٹی کا تمام تر ریکارڈ نہ منگوا کر بادی النظر میں یہ ثابت کیاہے کہ ان کی ڈگری جعلی ہے ۔ کئی لوگ آج بھی نقل کرکے یا پرچے خالی چھوڑ کر بعد میں حل کرکے پاس ہوجاتے ہیں ممکن ہے کہ صدیق بلوچ نے رٹا لگا کر امتحانات پاس کئے ہوں مگر کیا کسی امیدوار کا ٹریبونل کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات نہ دینے سے وہ عمر بھر کیلئے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ اس کی سند پر وائس چانسلر‘ کنٹرول امتحانات اور رجسٹرار کے دستخط بھی اصلی ہوں۔

(جاری ہے)

اگر پرائیویٹ امیدوار کے طور پر بلوچستان یونیورسٹی سے صدیق خان کا امتحانی داخلہ فارم غائب ہے تو کیا اس کی ذمہ داری بھی امیدوار پر عائد ہوگی یا اس بارے یونیورسٹی کی بھی کوئی ذمہ د اری بنے گی۔ جسٹس نے کہا کہ ہم خود بھی چاہتے ہیں کہ کوئی دھوکہ باز اسمبلیوں میں داخل نہ ہو ایسے لوگ جمہوریت کیلئے بھی بہتر نہیں ہیں۔ جبکہ اسی دوران جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے اس بات پر بے حد اصرار کیا کہ صدیق خان حیدر آباد میں میٹرک کے امتحان میں فیل ہوچکے ہیں نام اور ولدیت تک درست ہے اور دوسری جانب 43 سال بعد میٹرک کا کہا جاتا اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ بلوچستان یونیورسٹی کا ریکارڈ تک غائب ہے باقی امیدواروں کا اگر امتحانی داخلہ فارموں کا ریکارڈ موجود ہے تو پھر صدیق خان کا بھی ہونا چاہیے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ کیا آپ اس حق میں ہیں کہ تمام اداروں سے متعلقہ ریکارڈ منگوا کر اس کا جائزہ لے لیا جائے اگر ریکارڈ غلط ہوتا ہے تو آپ کی بات مان لی جائے اگر نہیں ہوتا تو پھر ہمیں کیا فیصلہ کرنا چاہیے اس پر مخدوم علی خان نے کہاکہ بات تو پھر واضح ہوجائے گی یہی بات جب عدالت نے صدیق خان کے وکیل شہزاد شوکت سے پوچھی تو انہوں نے کہا کہ اگر ریکارڈ سے ثابت ہوجاتا ہے تو وہ زندگی بھر کیلئے نااہل ہونے کو تیار ہیں ۔

عدالت یہ تو دیکھے ایچ ای سی ان کی سند کی تصدیق کررہی ہے ان کے خلاف سوائے جہانگیر ترین کے بیان کے علاوہ ان کی ڈگری کے حوالے سے براہ راستکوئی ٹھوس شواہد موجود نہ ہیں اور نہ ہی یہ شواہد ٹریبونل میں پیش کئے گئے ہیں۔ اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ ایک شخص کو اپنی ڈگری تک پڑھنا نہیں آتی اور اے بی سی تک نہیں جانتا اس کی ڈگری کو کیسے اصلی سمجھا جائے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ بہت حساس ہے کسی کو زندگی بھر دھوکہ باز قرار دیتے ہوئے وہ بہت محتاط ہیں عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت آج بدھ تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے صدیق خان بلوچ کو ذاتی طور پر طلب کیا ہے۔ مقدمے کی سماعت آج دن ایک بجے کے قریب ہوگی۔

متعلقہ عنوان :