نیب نے ادارہ کے اندرونی احتساب کے نظام کی منظوری دے دی، نیب نے مانیٹرنگ اینڈ ایویلوایشن کا نظام ترتیب دیا ہے ، مختلف انتظامی سطحوں پر معاونت اور سپروژن کے کام میں مدد ملے گی،تمام زیر التواء کیسوں کو 31 دسمبر 2015ء تک مکمل کرنے کی منظوری، ، کرپشن سے انکار ”سے نو ٹو کرپشن“ کی میڈیا کمپین کے تحت موثر طریقہ سے آگاہی فراہم کی جا رہی ہے، چیئرمین قمر زمان چوہدری کا ڈائریکٹر جنرلز کے سالانہ کانفرنس سے خطاب

منگل 27 اکتوبر 2015 10:02

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27اکتوبر۔2015ء)قومی احتساب بیورو (نیب) نے ادارہ کے اندرونی احتساب کے نظام کی منظوری دی ہے تاکہ غیر ذمہ داری ، ایس او پیز قوانین میں دیئے گئے احکامات کی خلاف ورزی اور غیر مستعد عناصر کا خاتمہ کیا جاسکے جبکہ تمام زیر التواء کیسوں کو 31 دسمبر 2015ء تک مکمل کرنے کی منظوری دی جس کے بعد کوئی کیس ''اوپن'' نہیں رہے گا جبکہ چیئرمین نیب نے کہا ہے کہ نیب اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اپنی استعداد کار کے تحت کیسز کو دیئے گئے وقت میں مکمل کرے، کرپشن سے انکار ”سے نو ٹو کرپشن“ کی میڈیا کمپین کے تحت موثر طریقہ سے آگاہی فراہم کی جا رہی ہے۔

یہ فیصلے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ڈائریکٹر جنرلز کے سالانہ کانفرنس میں کئے گئے جو پیر کو چیئرمین قمر زمان چوہدری کی صدارت میں نیب ہیڈکوارٹرز میں منعقد ہوئی۔

(جاری ہے)

کانفرنس میں نیب کے ڈپٹی چیئرمین، پراسیکیوٹر جنرل اکاؤنٹ ایبلٹی اور تمام ریجنل ڈائریکٹر جنرلز نے شرکت کی۔ چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ نیب انسداد رشوت ستانی کا ادارہ ہے جو این اے او کے تحت قائم کیا گیا تھا تاکہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکے۔

کچھ وجوہات کی بنیاد پر نیب کا کام گذشتہ سالوں میں بری طرح متاثر ہوا جس سے عملہ کی استعداد کار بھی متاثر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات کے تناظر میں سال 2014ء نیب کی بحالی کا سال تھا اور موجودہ انتظامیہ نیب کو واپس اپنے کام پر لائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مسائل اور مشکلات کے جامع تجزیہ کے بعد ادارہ کے کام کرنے کے طریقہ کار اور ڈھانچہ میں اصلاحات کا ایک پروگرام شروع کیا گیا جس سے ادارہ میں نہ صرف نئی روح پیدا ہوئی بلکہ اس میں مقاصد کے حصول، پروفیشنل ازم، شفافیت جیسے کردار بھی پیدا ہوئے جو ادارہ کے مختلف شعبوں میں نتائج کے حصول کیلئے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب کی موجودہ انتظامیہ کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کے تحت سی آئی ٹی، ایس او پیز کو موجودہ حالات کے مطابق ڈھالا گیا جن میں انکوائری اور تحقیقات کو مقررہ وقت کے دوران مکمل کرنے کیلئے ذمہ داریوں کو تفویض کیا گیا جبکہ عملہ کی استعداد کار میں بہتری کیلئے تربیت بھی فراہم کی گئی اور اس سے نتائج حاصل ہونا شروع ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ 2014ء میں شروع کئے گئے کام کو 2015ء میں بھی جاری رکھا گیا اور زیر التواء کیس جو گذشتہ 12 سال سے التواء میں تھے ان کی تعداد 1133 تھی اور متعلقہ حکام کو ہدایت کی گئی اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ ان کیسوں کا مقررہ وقت میں فیصلہ کریں جبکہ پیچیدہ کیسوں میں ایک اعلی سطح کی کمیٹی کے تحت ان کو معاونت اور رہنمائی بھی فراہم کی گئی۔

چیئرمین نے 92 فیصد کیسوں کو ختم کرنے کے حوالہ سے عملہ کی کارکردگی کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام عملہ کی مشترکہ کاوشوں سے ممکن ہوا ہے جو قابل تعریف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے مانیٹرنگ اینڈ ایویلوایشن کا نظام ترتیب دیا ہے جس سے مختلف انتظامی سطحوں پر معاونت اور سپروژن کے کام میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ دو سال کی کاوشوں اور سخت محنت کے بعد نیب ایک بہترین انسداد رشوت ستانی کے ادارہ کی صورت میں سامنے آیا ہے جو اپنی موجودہ افرادی قوت کی ترقی کیلئے تربیت اور ان کو کام کرنے کا بہترین ماحول فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ 110 تحقیقاتی افسران کی بھرتی سے ایک ماڈل ادارہ بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئے تحقیقاتی افسر جو سہالہ میں زیر تربیت ہیں ان کی تربیت کی تکمیل کے بعد تفتیش اور تحقیق کے کام میں مزید آسانی پیدا ہو گی، نیب اب پہلے سے زیادہ بہتر پوزیشن میں اپنا کام کرنے کا اہل ہے، ٹی سی ایس اور ایم اے کیوز کی نظرثانی سے افسران کے کیرئیر پر بھی خوشگوار اثر پڑا ہے، اس وقت فنڈز کی کمی کی کوئی شکایت نہیں ہے اور نہ ہی بنیادی ڈھانچہ اور لاجسٹک سپورٹ کا کوئی مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کے افسران کی محنت سے گذشتہ دو سال کے دوران شفافیت مقاصد کے حصول، پروفیشنل ازم بڑھانے میں مدد ملی ہے، یہ ایک نیا نیب ہے۔ ڈی جی نیب ہیڈکوارٹرز نے نئے قائم کردہ مانیٹرنگ اینڈ ایویلوایشن سسٹم پر تفصیلی بریفنگ دی اور اجلاس کے شرکاء کو اعداد و شمار کو محفوظ طریقہ سے مرتب کرنے بشمول شکایت کا اندراج ، شکایت کی تصدیق، انکوائری، تحقیق اور قانونی کارروائی کے حوالہ سے سسٹم سے استفادہ کرنے کے بارے میں بتایا جبکہ انہوں نے نئے نظام کے تحت ریجنل بورڈز کے اجلاسوں اور ایگزیکٹو بورڈز کے اجلاسوں سمیت کیسوں کی بریفنگ، ان پر ہونے والے فیصلوں اور اجلاس میں شرکاء کی تعداد، وقت اور تاریخ سمیت مختلف دستیاب سہولیات سے بھی آگاہی فراہم کی۔

چیئرمین انسپکشن اینڈ مانیٹرنگ ٹیم کے سینئر ممبر نے اپنی بریفنگ کے دوران بتایا کہ نیب کا طریقہ کار وی آر /پی بی کے تحت ہے اور کہا کہ کام کے لوڈ کو تقسیم کرنے کے حوالہ سے پہلے سے ایس او پی مرتب کی جا چکی ہے اور کیسوں کی جلد از جلد ڈسپوزل کیلئے ٹائم لائن رکھی گئی ہے جس میں شکایت کی تصدیق سے لے کر اس کی تفتیش اور احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کیلئے 10 ماہ کا زیادہ سے زیادہ وقت مقرر کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایس او پی 10 سال کے بعد دوبارہ تبدیل کر کے موجودہ ضروریات کے تحت کیا گیا ہے جس میں اقتصادی ، سماجی اور ٹیکنالوجی کے حقائق کو مدنظر رکھا گیا ہے جبکہ اس کے علاوہ قانون کے تحت مقاصد کے حصول کیلئے بھی خصوصی رہنمائی شامل کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد نیب کے علاقائی بیورز کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا ہے۔ ڈی جی جیز کانفرنس کے 20ویں اجلاس کے دوران اس کی منظوری دی گئی تھی۔

کانفرنس میں نیب کے اندرونی احتساب کے نظام کی بھی منظوری دی گئی جو نیب کے اندر نافذ ہو گا جس کا مقصد غیر ذمہ داری ، غلط حرکات، ایس او پیز قوانین میں دیئے گئے احکامات کی خلاف ورزی اور غیر مستعد عناصر کا خاتمہ ہے جو ادارہ کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ چیئرمین نیب نے سینئر ممبر کو ہدایت کی کہ وہ تمام ریجنل بیوروز کو اس پر عمل کرنے کیلئے ہدایات جاری کریں۔

کانفرنس نے پی کیو جی ایس کی بھی منظوری دی، یہ سسٹم کارکردگی کے تناسب کا جائزہ لے گا۔ ڈی جی آپریشن نیب نے سی آئی ٹی کے طریقہ کار کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی اور بتایا کہ ڈی او سی کے بعض کیسز میں وقت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کانفرنس نے تمام زیر التواء کیسوں میں کو 31 دسمبر 2015ء تک ختم کرنے کی منظوری دی۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ کسی بھی کیس کو اوپن نہیں چھوڑا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ نیب اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اپنی استعداد کار کے تحت کیسز کو دیئے گئے وقت میں مکمل کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں کام کرنے کے طریقہ کار کا ازسر نو جائزہ لے کر اس میں ضروری ترامیم کی گئی ہیں اور ان کی منظوری دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ”سے نو ٹو کرپشن“ کی میڈیا کمپین کے تحت موثر طریقہ سے آگاہی فراہم کی جا رہی ہے۔ کانفرنس مزید دو دن جاری رہے گی جس میں نیب کی کارکردگی میں بہتری کیلئے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :