این اے 154 لودھراں دھاندلی مقد مہ ، 20 ہزار ووٹ کس نے ڈالے ۔ درخواست گزار کو ثابت کرنا ہوگا کہ یہ دھاندلی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن عملے کی کمزوریاں اور نااہلی تھی ۔جسٹس ثاقب نثار ، صدیق خان کی زندگی بھر کی نااہلی کا معاملہ ہے ، ان کے وکیل اس پر پہلے بات کر سکتے ہیں،ریما رکس

جمعہ 23 اکتوبر 2015 10:15

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23اکتوبر۔2015ء) سپریم کورٹ میں این اے 154 لودھراں دھاندلی کے مقدمے میں سماعت کے دوران تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اگر تو الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف آنے والے صدیق خان کی زندگی بھر کی نااہلی کا معاملہ ہے جو بظاہر دکھائی بھی دے رہا ہے تو ان کے وکیل اس پر پہلے بات کر سکتے ہیں یہ عدالت کی جانب سے سمجھوتہ نہ سمجھا جائے وہ اب دل برداشتہ نہیں ہیں بات آئی گئی ہو گئی ۔

ویسے بھی ججز کی ریزرویشن کو ہائی لائٹ نہیں کرنا چاہئے ۔ 20 ہزار ووٹوں پر سے انگوٹھوں کے نشانات کا موجود ہونا اور شناختی کارڈ نمبر کا نہ ہونا ثابت ہے تو پھر یہ ووٹ کس نے ڈالے ۔ درخواست گزار کو ثابت کرنا ہوگا کہ یہ دھاندلی نہیں تھی بلکہ الیکشن کمیشن عملے کی کمزوریاں اور نااہلی تھی ۔

(جاری ہے)

یہ کورٹ آف اپیل ہے ۔ دی گئی شہادتوں کو بھی قانون شہادت پر پرکھ کر غلط ثابت کرنا ہو گا جبکہ صدیق خان بلوچ کے وکیل شہزاد ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا ہے کہ 20 ہزار ووٹوں کے انگوٹھوں کے نشانات کی نادرا نے اس لئے تصدیق ہی نہیں کی کہ ان کے ساتھ شناختی کارڈ نمبرز نہیں تھے ۔

انتخابی بے ضابطگیاں ضرور ہوئی ہیں اس کے انتخابی نتیجے پر اثر نہیں پڑتا جبکہ مخدوم علی خان نے کہا ہے کہ عدالت نے جس بات کا تاثر لیا اور دلبرداشتہ ہوئی اس بارے نہ انہوں نے اور نہ ہی ان کے موکل نے کہیں بات کی ہے ۔ دوسری طرف کے مخالف سیاسی عناصر کی وجہ سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے انہوں نے یہ دلائل جمعرات کے روز دیئے ہیں ۔ مزید سماعت پیر کو دن ایک بجے کے بعد ہو گی ۔

شہزاد شوکت نے دلائل جاری رکھے جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آیا الیکشن ٹریبونلز سول کورٹس یا کچھ اور اسی بارے فیصلے حقائق جاننے کے بعد ہی کریں گے ۔شہزاد ایڈووکیٹ نے الیکشن ٹریبونلز کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ 39 ہزار سے زائد کاؤنٹر فائل تصدیق شدہ نہ تھیں جس کو خلاف ورزی قرار دیا گیا ۔ پریذائڈنگ آفیسر کے ان پر دستخط نہ تھے بہت سے پولنگ اسٹیشنز میں کاؤنٹر فائلز پر دستخط نہ تھے اور یہ پولنگ اسٹیشنز حد بندیوں سے بھی آزاد تھے ۔

اس طرح اور بھی شکایات جہانگیر ترین نے الیکشن ٹریبونل کے روبرو اٹھائے تھے ۔ پولنگ بیگز بھی ٹمپر تھے پہلے تو بیلٹ پیپرز کافی تعداد میں غائب تھے مگر جب دوبارہ گنتی کی گئی تو وہ سب بھی پیش کئے گئے جو حیرت کا باعث تھے ۔ووٹرز لسٹ بھی غائب تھیں اور کئی جگہوں پر انگوٹھوں کے نشانات تک نہ تھے یہ دھاندلی کے الزامات تھے جس بارے ٹریبونل نے فیصلہ دیا تھا ۔

جہاں تک شہادت اور گواہوں کا تلعق ہے تو 4 گواہوں کے بارے میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے یہ سب ہوتے دیکھا تھا ۔ عدالت نے کہا کہ کیا ان گواہوں نے دھاندلی بارے گواہی دی تھی اس پر شہزاد نے کہا کہ یہ گواہوں نے کہا تھا ۔ تمام تر بیلٹ پیپرز کی دوبارہ سے گنتی کی گئی تھی ۔ریجنل آفیسر نے رپورٹ مرتب کر کے ارسال کی تھی ۔ محمد شہباز خان گواہ بارے بھی بتایا کہ ان کی گواہی سے بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ عملی طور پر دھاندلی کی گئی ۔

اس نے بیان حلفی بھی دیا جس میں اس نے کہا تھا کہ اس کی درخواست سچی ہے جزوی بیان حلفی تصور کیا جائے ۔گواہ نے بتایا کہ مہریں لگائی جا رہی تھی جس کا روکا گیا جس سے آدھا گھنٹہ پولنگ رکی رہی ۔ دونوں گواہوں کے بیانات کے حلفی پر کوئی تاریخ درج نہیں تھی ۔ ایک کا اوتھ کمشنر لودھراں جبکہ دوسرے کا بیان حلفی اوتھ کمشنر اسلام آباد سے تصدیق شدہ تھا ۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کیا آپ نے عدالت عظمیٰ کا تازہ ترین فیصلے جو بیان حلفی بارے دیا تھا ۔ اس بارے تفصیلی فیصلہ دیا تھا کہ الیکشن کے معاملات میں بیان حلفی کا کیا کردار ہو گا ۔ شہزاد نے بتایا کہ انتخابات سے دو دن بعد بیان حلفی بنا کر جہانگیر ترین آفس میں دیا گیا اور یہی بات گواہ نے کہی ۔ اور یہ جہانگیر ترین کے پولنگ ایجنٹ تھے ۔

پولنگ اسٹیشن نمبر 229 میں تقریباً ایک ہزار ووٹ کاسٹ کئے گئے تھے کہ اس دوران کنٹرول روم میں دھاندلی بارے پتہ چلا تو اس کا جائزہ لیا گیا ۔ گواہ کہتا ہے کہ وہ سارا دن باہر کھڑا رہا اسے اندر سے آنے والے لوگوں نے بتایا کہ دھاندلی ہو رہی ہے ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ دھاندلی تو یہ ہے کہ پولنگ اسٹیشن میں غیر قانونی طور پر ووٹ کاسٹ کئے جائیں ۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اوتھ کمشنر کے حوالے سے کہہ رکھا ہے کہ بیان حلفی کی تصدیق اسلام آباد میں بھی ہو سکتی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کا دفتر یہاں اسلام آباد میں ہے دیکھنا یہ ہے کہ یہ بیان حلفی جمع کہاں کرایا گیا ہے ۔کیا آپ نے بیان حلفی کی تصدیق اور دیگر حوالوں سے معاملات کا جائزہ لیا تھا ۔ شہزاد نے کہا کہ پہلے بیان حلفی میں کچھ بھی نہیں کہا گیا ۔

دوسرا تو میرے مطابق بیان حلفی ہی نہیں ہے ۔ اس کی تصدیق کا عمل بھی صحیح نہیں ہے ۔اوتھ کمشنر کی مہر جو بیان لیتے ہوئے لگائی جاتی ہے وہ نہیں لگائی گئی صرف ایک مہر لگائی گئی ہے ایک ہی وقت میں لگتا ہے کہ بیان حلفی کی تصدیق کرائی گئی ہے ۔ گواہ کا کہنا ہے کہ دو افراد بیلٹ پیپرز پر نشانات لگاتے رہے ۔ بیانات ایک ہی شخص نے لکھے ہیں ایک گواہ کا کہنا ہے کہ خاتون اندر چھپی ہوئی تھی اور خواتین سے زبردستی بیلٹ پیپرز لے کر مہریں لگاتی رہی اور یہی کام مردوں کے پولنگ سٹیشن میں بھی کیا گیا ۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ غیر قانونی کام کو واضح نہیں کیا گیا کہ کس طرح سے غیر قانونی کام کیا جا رہا تھا جن لوگوں کے نام لئے گئے ہیں ان کے بارے تفصیل نہیں دی گئی ۔یہ گواہ عورتوں والے پولنگ اسٹیشن تو گیا مگر اس کے حوالے سے بتا ضرور رہا ہے کہ وہاں ایک چھپی ہوئی خاتون نے دھاندلی کی ہے اور زبردستی خواتین کے بیلٹ پیپرز پر مہریں لگاتی رہی ۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ یہ میں آپ کو بتا دوں کہ مخدوم علی خان بھی اس طرح کی شہادت پر انحصار نہیں کریں گے ۔ ہر ہارنے والے امیدوار کے پولنگ ایجنٹس مہریں لگانے کے حوالے سے بیانات حلفی دے سکتے ہیں بہت کم لوگ ہوں گے جو اس حوالے سے صحیح اور الگ سے بیان حلفی دے سکتے ہیں مگر پتہ نہیں انہوں نے بیان حلفی دیا بھی ہو گا کہ نہیں ۔ شہزاد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ گواہ کا کہنا ہے کہ اس نے تحریری بیان نہیں دیا تھا کیونکہ وہ پڑھا لکھا نہیں ہے ۔

میری بہو نے ووٹ ڈالنے کے بعد بتایا تھا کہ دھاندلی ہو رہی ہے ۔پہلے 7 گواہ دوبارہ گنتی سے متعلق ہیں دھاندلی بارے گواہوں میں ان کے زیادہ تر پولنگ ایجنٹس شامل ہیں ۔ زیادہ تر الزامات کاؤنٹر فائلز پر دستخطوں کے نہ ہونے ،انگوٹھوں کے نشانات نہ ہونے بارے ہیں ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پورے انتخابی نظام کا جائزہ لے رہے ہیں کہ انگوٹھے کے نشانات کا نہ ہونا ، کاؤنٹر فائل پر دستخط نہ ہونا بھی دیکھنا پڑے گا ۔

شہزاد ایڈووکیٹ نے کہا کہ انہوں نے سارے کا سارا الزام مجھ پر لگایا ہے کہ یہ سب کچھ میرے کہنے پر کیا ہے عدالت نے کہ اکہ اگر ان کا مقدمہ 68 میں فال نہیں کرتا تو کیا 70 اے بھی اس پر لاگو ہوگا یا نہیں ۔ شہزاد ایڈووکیٹ نے کہا کہ انہوں نے الزامات عائد کئے ثابت بھی انہوں نے ہی کرنا تھے ۔ یہ کہتے ہیں کہ ووٹر لسٹ پر بھی مہر نہیں لگی ہوئی تھی اور نہ ہی دستخط تھے ۔

27 مئی 2015 کو فیصلہ آیا تھا جس میں بیانات حلفی کی تصدیق بارے بات کی گئی ہے ۔ عدالت نے کہا کہ یہ گواہ عجیب کیسے ہیں اس پر وکیل نے کہا کہ گواہوں میں زیادہ تر پولنگ ایجنٹ تھے ۔ ایک نے بتایا کہ وہ ریٹائر الیکشن کمیشں آفیسر ہیں اور آج کل جہانگیر ترین کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ الیکشن ٹریبونلز نے پہلے مختصر پھر تفصیلی فیصلہ جاری کیا حالانکہ ایسا کرنا صرف اعلی عدلیہ ہی کا خاصا ہے ۔

ماتحت عدلیہ ایسا نہیں کر سکتی ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ نے جرح کے وقت حقائق بارے بات کیوں نہیں کی ۔ اگر کوئی معاملہ تھا تو اس وقت اس پر بات کیوں نہیں کی گئی ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ اپنے موقف کو قانون شہادت پر پرکھ کر ثابت کریں ۔ گواہوں نے کیا کہا کیا نوٹس بنائے کیا بیان حلفی میں لکھا ہوا تھا اس کے قانونی اثرات بارے بھی بات کریں ۔

شہزاد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک گواہ نے بتایا کہ وہ امیدوار ضیعم کے نمائندہ تھے ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا یہ کوٹ آف اپیل ہے آپ قانون شہادت کے مطابق ثابت کریں آپ ثابت کریں کہ جتنا کچھ غلط تھا وہ سب کچھ الیکشن کمیشن کی نااہلی تھا اور یہ اسی کی کمزوریاں اور ناکامی تھی کہ جس کی وجہ سے اس حلقے میں دھاندلی ہوئی ۔ وکیل نے کہا کہ جہانگیر ترین کے علاوہ کسی اور امیدوار نے میرے خلاف بات نہیں کی ۔

انہوں نے گواہ اشفاق احمد سرور کا بیان حلفی بھی پڑھ کر سنایا ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ فرض کر لیتے ہیں کہ گواہوں کی بات درست ہے تو دوبارہ گنتی کے معاملے کو ہم کیا کہیں گے اور کیا آپ نے کوئی گواہ پیش کیا تھا ۔ان گواہوں نے ایک ایک بات بتائی ہے جو بھی غلط ہوا اس بارے بھی بتایا ۔ جرح کے دوران بھی کمزوریاں سامنے آئی ہیں ۔ شہزاد نے کہا کہ ہمارے گواہ بھی اس سلسلے میں پیش ہوئے تھے ہم نے ایک ایزرور اور نادرا کی رپورت پر انحصار کیا تھا۔

19 مئی تک 67 بیگز سے گنتی کی گئی تھی جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ یہ ساری غلطیاں الیکشن سٹاف کی ہیں کیا سب کاؤنٹر فائلز کی ایک ساتھ کہیں تفصیل موجود ہے ۔جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ گواہ کہہ رہا ہے کہ 200 بیلٹ پیپرز جو غیر استعمال شدہ تھے وہ پولنگ بیگ میں موجود نہ تھے ۔ نادرا رپورٹ اور ایزرور میں سے کس کی رپورٹ پر انحصار کیا گیا ۔ وکیل نے کہا کہ نادرا رپورٹ پر انحصار کیا گیا ۔

مختلف گواہ مختلف پولنگ اسٹیشنز کے حوالے سے مختلف باتیں کرتے رہے ہیں ۔ الیکشن کمیشن والے کہتے ہیں کہ غیر استعمال شدہ بیلٹ پیپرز پولنگ بیگز میں سے نہیں نکلے ۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ نے یہ بتایا ہے کہ دھاندلی کیسے ہو سکتی ہے اور اگر الیکشن کمیشن عملے کی بڑے پیمانے پر کمزوریاں سامنے آ ئی ہیں تو اس کا اس انتخاب پر کتنا اثر پڑ سکتا ہے ۔

وکیل نے کہا کہ دوبارہ گنتی کرانے سے میرے ووٹوں میں اضافہ ہی ہوا ہے جبکہ جہانگیر ترین کے ووٹوں میں کمی ہوئی ہے اس سے سارے انتخاب پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال اگر کاؤنٹر فائلز کا معاملہ آیا یا کوئی اور کمزوریاں سامنے آئیں کیا ان کا انتخاب پر کس حد تک اثر پڑا تھا ۔نادرا کے کہنے پر فاضل وکیل نے نادرا رپورٹ بھی پڑھ کر سنائی ۔

68 سیکشن کے تحت اگر جیتنے والے امیدوار کی جانب سے دھاندلی ثابت ہوتی ہے تو اس کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے گا ۔ سیکشن 70 بھی پڑھ کر سناای ۔ یہ الیکٹورل دھاندلی میں نہیں آتا ۔ عدالت نے کہا کہ اگر الیکشن رولز اور سیکشنز کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو الیکشن ٹریبونل انتخاب کو کالعدم قرار دے سکتا ہے اگر کاؤنٹر فائلز پر دستخط اور مہر نہ ہونا اور دیگر کمزوریاں ہیں وہ کس حد تک انتخاب پر اثر انداز ہو سکتی ہیں ۔

اپیل میٹر آ رائٹ ہے اور یہ اپیل کورٹ ہے ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جو ابزرور کی رپورٹ آئی ہے اس کے علاوہ باقی کو چھوڑ دیں اس رپورٹ میں کی گئی کمزوریاں ثابت ہوئی ہیں تو پھر اس کیس کو کہاں رکھیں گے ۔ سیکشن 68 کے تحت اس کا فیصلہ ہو گا یا سیکشن 70 اے استعمال ہو گا ۔ وکیل نے کہا کہ سیکشن 70 اے اس میں استعمال نہیں ہوتا ۔ اگر میٹریل موجود نہیں ہے تو اس کا اثر کس حد تک ہو گا اس کا جائزہ لینا ہوگا ۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ کن صورتوں میں مواد انتخاب پر اثر انداز ہو گا ۔ وکیل نے کہا کہ ان کمزرویوں کا رزلٹ پر اثر انداز ہونا ضروری ہے ۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر یہ کمزوریاں ناکامی ہیں تو ثابت کریں کہ ان کا رزلٹ پر اثر نہیں ہوا ہے ۔ ایک جج صاحب نے جنازے پر جانا ہے ۔ آپ اپنے دلائل کو سمیٹنے کی کوشش کریں ۔ وکیل نے کہا کہ 90 فیصد ووٹس کی تصدق ہوئی ہے ۔

70 ہزار ووٹوں کے انگوٹھوں کے نشانات ثابت ہیں ۔ عدالت نے کہا کہ ہم نے ان کو نہیں دیکھا ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ 20 ہزر ووٹ نکل جاتے ہیں ایسا کیسے ہوا ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر 20 ہزر ووٹ شامل کرتے ہیں تو اس کے میٹریل کے طور پر اثر ضرور ہو گا وکیل نے کہا کہ 20 ہزار ووٹ وہ ہیں جن کی نادرا نے تصدیق نہیں کی ہے ۔ کاؤنٹر فائل پر انگوٹھا تو لگا ہوا ہے شناختی کارڈ نمبر دیا گیا تھا اس لئے انہوں نے پڑتال نہیں کی ۔

فرشتے تو نہیں آئے ہوں گے جس نے بھی انگوٹھا لگایا تھا وہ واضح ہو جاتا یہ نادرا کے ڈائریکٹر نے بتایا ہے ۔ رپورٹ کو ہم اس طرح سے مان لیتے ہیں ۔نادرا نے ان ووٹ کا پراسس تک نہیں کیا ان انگوٹھا نشانوں کو سکین ہی نہیں کیا گیا ۔ 20 ہزار ووٹ کسی ایک علاقے میں نہیں ہیں ۔290 پولنگ اسٹیشنوں پر مختلف تعداد میں ہیں یہ طے شدہ دھاندلی نہیں ہے جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ یہ اگر یہ ووٹ شامل ہو جاتے ہیں تو پھر اس کا کیا اثر ہو گا ۔

وکیل نے کہا کہ نادرا نے عملی طور پر کام نہیں کیا ۔میری استدعا ہے کہ ان 20 ہزار کاؤنٹر فائلز کی تصدیق تو کریں کہ یہ انگوٹھا کس کا ہے ۔ا ن کی اپنی رپورٹ میں لکھا ہوا ہے ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کا کہنا یہ ہے کہ انگوٹھا موجود ہے مگر شناختی کارڈ نمبر ہے ہے ان کو ان انگوٹھے کا نشانات کی تصدیق کرنا چاہئے تھی ۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ کیا آپ نے اس حوالے سے درخواست دی تھی ۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کو مسئلہ اگلے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہے پہلے آپ اس حوالے سے بات کریں اس کا جائزہ لے لیتے ہیں مجھے تو آپ کا مقصد یہی لگتا ہے کہ آپ عمر بھر کے لئے نااہل قرار دیئے گئے ہیں ہم سمجھوتہ نہیں کر رہے ہیں مگر خیال آ رہا ہے کہ یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کا اصل مقصد پابندی ہے ان کی جعلی ڈگری کی وجہ سے نااہلی قرار دیئے گئے یہ سوالات کے جوابات نہیں دیئے گئے ہیں ممکن ہے کہ انہوں نے رٹا لگا کر ایف آے کیا ہو ہم اس پر نہیں جا سکتے ۔

ان چیزوں پر جرح کی جا سکتی ہے جو آج سے 10 سے 15 سال قبل کی گئی ہوں ۔ ان تمام وجوہات بارے قانون دیکھنا ہو گا شہادت کس طرح سے قبل قبول ہو گی۔ انتخابی تنازعات میں مخدوم علی خان نے کہا کہ جعلی ڈگری بارے سوال بھی اتنا اہم نہیں ہے تعلیم ایسی چیز ہے جس کو بھلانا آسان نہیں ہوتا بھول سکتے ہیں ۔ ایک چیز کہی جا سکتی ہے کہ ایک شخص وہ کچھ بھول جائے جو اس نے یاد کی ہو مگر میٹرک میں پاس کردہ مضمون کے الف ب تو نہیں بھولے جا سکتے ۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے یہ مضمون پاس ہی نہیں کیا ہے ۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ روز جو تاثر لیا واضح کر دوں میرے موکل نے عدالتی فیصلے بارے بات نہیں کی اس بارے وڈیو ریکارڈنگ منگوائی جا سکتی ہے ۔یہ دیگر سیاست دانوں کی باتیں ہیں ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ بات آئی گئی ہو گئی ۔ ججز کی ریزرویشن ہائی لائٹ نہیں ہونی چاہئے ۔ پیر کو اس مقدمے کی سماعت ایک بجے کے بعد ہو گی آپ دونوں کو وقت تقسیم کرنا پڑے گا ۔