ریاستی ادارے کچھ بھی ہوجائے ایک دوسرے کے مقابل نہیں آتے،چیف جسٹس ،عوامی نمائندے سیاسی انتظامیہ کے تحت نہیں ہوتے کئی بار ان پر قانون سے ہٹ کر اقدام کرنے پر دباؤ ڈالا گیا، انہیں ان تمام دباؤ سے بالاتر ہوکر اپنے فرائض سرانجام دینا چاہئیں، سپریم کورٹ کے مقدمات موجود ہیں جس کے تحت کہا گیا عوامی نمائندگان آئین و قانون سے ہٹ کر کسی بھی حکم کی بجا آوری کے پابند نہیں ، دباؤ کا شکار بیورو کریسی حکومت اور انتظامی طور پر عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی، اچھی حکمرانی ایماندار اور مضبوط بیورو کریسی پر منحصر ہے،مقدمات نمٹانے کے حوالے سے ہماری کوشش تاحال اطمینان بخش نہیں ہے،جسٹس انور ظہیر جمالی نے کا نیشنل سکول آف پبلک پالیسی کے شرکاء سے خطاب

جمعہ 16 اکتوبر 2015 09:39

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔16اکتوبر۔2015ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ریاست کے مختلف ستونوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کیلئے آئین پاکستان میں اختیارات کی تقسیم کا اصول وضع کیا ہے۔ تمام اداروں کا مختلف کردار ہے‘ ریاستی ادارے کچھ بھی ہوجائے ایک دوسرے کے مقابل نہیں آتے‘ عدالتی سال 2014-15 ء کے دوران 15177 مقدمات نمٹائے گئے ہیں زیر التوا مقدمات کی تعداد 26281 ہے جس میں 2366 مقدمات کا اضافہ ہوا ہے۔

مقدمات نمٹانے کے حوالے سے ہماری کوشش تاحال اطمینان بخش نہیں ہے۔ نیشنل سکول آف پبلک پالیسی کے شرکاء سے جمعرات کے روز خطاب میں چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا اور سپریم کورٹ انصاف کی فراہمی مین تیزی سے سرگرداں ہے۔ عدالتوں کو انصاف کے متمنی عوام کی دشواریوں سے مکمل گاہی حاصل ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ سول انتظامیہ ریاست کے جدید نظام حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے یہ ملک کو لیڈر شپ ‘ کمانڈ اینڈ کنٹرول ‘ آئین و قانون کیلئے پالیسی دیتے ہیں۔

بدقسمتی سے سول سوسائٹی ان مقاصد کے حصول سے کوسوں ور ہے ‘ ابھی تک کارکردگی متاثر کن نہ ہے۔ بدعنوانی‘ سیاسی مداخلت اور احتساب کی کمی اس کی وجہ ہے۔ آپ کو موقع مل رہا ہے آپ ماضی اور مستقبل کا موازنہ کریں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 25 مارچ 1948 ء کو گزیٹڈ افسران سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا آپ کو اپنا فرض اس طرح ادا کرنا ہے جیسے آپ لوگوں کے خادم اور دوست ہیں۔

احترام کا اعلیٰ معیار برقرار رکھتے ہوئے انصاف اور شفاف کام سے یہ آپ کر سکتے ہیں۔ لوگ آپ پر اعتماد کرین گے اور لوگ آپ کو اپنا دوست اور خیر خواہ مانیں گے۔ عوامی نمائندے سیاسی انتظامیہ کے تحت نہیں ہوتے کئی بار ان پر قانون سے ہٹ کر اقدام کرنے پر دباؤ ڈالا گیا۔ انہیں ان تمام دباؤ سے بالاتر ہوکر اپنے فرائض سرانجام دینا چاہئیں۔ سپریم کورٹ کے مقدمات موجود ہیں کہ جس کے تحت کہا گیا ہے کہ عوامی نمائندگان آئین و قانون سے ہٹ کر کسی بھی حکم کی بجا آوری کے پابند نہیں ہیں۔

دباؤ کا شکار ہونے والی بیورو کریسی حکومت اور انتظامی طور پر عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ اچھی حکمرانی ایماندار اور مضبوط بیورو کریسی پر منحصر ہے۔ منتخب عوامی نمائندوں کی انتظامی اداروں کے ساتھ زیادہ تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ بیورو کریسی کا فرض یہ ہے کہ وہ منتخب عوامی نمائندگان کو بہتر رہنمائی فراہم کریں۔ تاکہ وہ اپنے فرائض قانون کے مطابق ادا کر سکیں۔

اس لئے بیورو کریسی کو دیئے گئے بعض احکامات وضاحت طلب نہیں ہوتے۔ سرکاری افسران اپنے اعلیٰ افسران کے صرف ان احکامات کی بجا آوری کے پابند ہیں جو قانون کے مطابق ہوں ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ادارے کے حکام اپنے کئے کے ذمہ دار ہیں۔ انہیں غیر قانونی احکامات کی بجا آوری میں ہچکچانا چاہیے۔ عدالت خاص طور پر رولز آف پریس کی شق 5(10) اور 1973 کے آئین کے آرٹیکل 90 اور 99 کی جانب توجہ مبذول کراتے ہیں عدالت یہ بھی ریزرو کرتی ہے ۔ پاکستان کی سول سروس میں تقرر کا عرصہ ‘ ترقی اور تبادلے قانون‘ قواعد اور پالیسی کے تحت ہی ہونے چاہئیں۔

متعلقہ عنوان :