سینٹ،متحدہ اپوزیشن کی واپڈاہاؤس اور پی سی بی کی لاہور سے اسلام آباد منتقلی کی حمایت ،حکومت نے مخالفت کردی، سینیٹر باز محمد خان اور سینیٹر سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل نے قراردادیں پیش کیں،چیئرمین سینٹ نے معاملے کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا

منگل 6 اکتوبر 2015 08:57

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6اکتوبر۔2015ء)ایوان بالا میں متحدہ اپوزیشن نے واپڈاہاؤس اور پاکستان کرکٹ بور ڈ (پی سی بی )کو لاہور سے اسلام آباد منتقل کرنے کی حمایت کردی ہے جبکہ حکومت نے اس کی مخالفت کر دی ہے،تاہم چیئرمین سینٹ نے دونوں اداروں کے ہیڈ آفسز کی وفاقی دارالحکومت منتقلی کے معاملے کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا ہے ۔پیر کے روز سینٹ اجلاس میں سینیٹر باز محمد خان نے واپڈا ہاؤس کو لاہور سے اسلام آباد منتقل ہونے کی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں یہ تاثر ہے کہ پنجاب پاکستان ہے‘ چھوٹے صوبوں میں احسان محرومی ہے اگر بروقت یہ احساس محرومی ختم نہ کیا گیا تو ملک میں 1970 ء کے حالات پیدا نہ ہوجائیں اس لئے حکومت اس کی مخالفت نہ کریں۔

سینیٹر فرحت الله بابر نے کہاکہ حکومت واپڈا ہاؤس کی قرار داد کی مخالفت نہ کریں بلکہ صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوگئی ہے۔

(جاری ہے)

اس لئے اس قرار داد پر تفصیلی بحث ایوان میں کی جائے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ واپڈا ہاؤس کو وفاقی دارالحکومت میں شفٹ کیا جائے تاکہ واپڈا کو بہتر انداز میں چلایا جائے۔ سینیٹر عثمان خان کاکر نے کہا کہ وہ واپڈا ہاؤس کی منتقلی کی قرار داد کی تائید کرتے ہیں تمام وفاقی وزارتیں یہاں پر ہیں تو واپڈا ہاؤس بھی اسلام آباد میں ہونا چاہیے۔

جس کو جلد از جلد شفٹ کیا جائے۔ سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ واپڈا صوبوں کی نہیں بلکہ وفاقی ادارہ ہے اس لئے اس کو اسلام آباد میں منتقل کیا جائے۔ سینیٹر اعظم خان‘ سینیٹر کبیر نے کہاکہ واپڈا میں اس وقت بہت سے مسائل ہیں صوبوں کے احساس محرومی کو سمجھا جائے اور اسلام آباد میں ہی واپڈا ہاؤس منتقل کیا جائے۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ اسلام آباد تمام صوبوں کی نمائدبنہ ہے ا لئے پناجب کو اگر واپڈا ہاؤس سے کوئی فائدہ ہے تو حکومت ایوان کو بتائے تاکہ ہم بھی اس پر قائل ہوجائیں۔

لہذا اس کو وفاقی دارالحکومت منتقل کردیاجائے جس پر وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور آفتاب شیخ نے کہا کہ واپڈا ہاؤس کی بلڈنگ اربوں روپے سے بنائی گئی ہے جس میں پانچ ہزار ملازمین کام کررہے ہیں اگر اسلام آباد دارالخلافہ ہے تو سٹیٹ بینک کراچی میں ہے پاکستان ٹوبیکو بورڈ پشاور میں اگر اس طرح تمام ہیڈ آفس کو اسلام آباد میں شفٹ کردیں تو یہاں پر ویسے بھی جگہ کی کمی ہے اتنے ملازمین کو رہائش کا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا یہ ادارے وفاقی ہیں اور وزارت یہان پر ہے اس کو لاہور میں ہی رینے دیا جائے۔

سینیٹر سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) آفس کو لاہور سے اسلام آباد منتقل کرنے کی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس کی خالفت نہ کریں بلکہ وفاق کو مضبوط کرتے ہوئے اس کو شفٹ کردیا جائے۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کا کہ کرکٹ میں موجود کھلاڑیوں کا تعلق تمام صوبوں سے ہے لہذا اس کو اسلام آباد منتقل کیا جائے۔

سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار کھیل ہے جس سے جوانوں میں کھیلوں کی طرف راغب کرنا ضروری ہے جس کے لئے پی سی بی کو اسلام آباد منتقل کیا جائے لاہور میں بھی ہونا چاہیے لیکن ہیڈ آفس وفاقی دارالحکومت میں ہونا چاہیے۔ سینیٹر باز محمد خان نے کہا کہ واپڈا ہاؤس یا پاکستان کرکٹ بورڈ کو اسلام آباد لانے کا مطالبہ کوئی غلط نہیں بلکہ مرکز کو مرکزی علامت تصور کرتے ہوئے اس کو منتقل کردیا جائے کرکٹ بورڈ آفس اسلام آباد منتقل کیا جائے۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ واپڈا ہاؤس اور پی سی بی آفس کی منتقلی کی باتیں ٹھیک نہیں ہیں غلط معاملہ شروع ہوا ہے۔ یہ بحث بہت آگے نکلے گی تمام صوبے پاکستان کا حصہ ہیں یہ بٹوارے کا معاملہ ختم کردیا جائے یہاں پر صرف اور صرف ملکی معاملات کو دیکھا جائے۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ بہت سے وفاقی ادارے دوسرے صوبوں میں ہیں اگر سب کو وفاق میں منتقل کردیا جائے تو یہ حماقت ہے۔

سینیٹر مشاہد الله خان نے کہا کہ یہ ملک ہے کوئی مذاق نہیں ہے کبھی صوبے کہتے ہیں کہ صوبوں کو اختیار دیا جائے اب کہتے ہیں کہ اس کو وفاق میں منتقل کیا جائے یہ بڑا حساس مسئلہ ہے اس کو اس طرح بحث کرکے نہ کیا جائے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کمیٹی کے سپرد کرکے اس پر بحث ہوجائے تمام صوبوں میں جو وفاقی ادارے ہیں اس پر بھی بات کریں صرف پنجاب کی بات کرنا درست نہیں ہے۔

سینیٹر ثوث محمد خان نیازی نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت جو ادارے صوبوں کے پاس گئے ہیں ان میں صوبوں کی کارکردگی دیکھی جائے اس میں صوبوں نے کیا کیا ہے یہ ایوان پاکستان کی نمائندگی کررہا ہے یہاں پر پاکستان کی بات کی جائے ایک صوبے کی بات نہ کی جائے۔ قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ واک آؤٹ کالا باغ ڈیم پر نہیں ہوا بلکہ لفظ مقافات عمل پہ ہوا میڈیا پر چلنے والی خبروں میں واک آؤٹ کالا باغ ڈیم کے لفظ نہیں ہوا جس کو چیئرمین سینیٹ نے حذف کردیا جبکہ پی سی بی آفس اور واپڈا ہاؤس کو وفاق میں لانے کی سفارش ہے اگر اس کو منتقل کرنا ہے تو تحلیل کمیٹی کے سپرد کردیا جائے۔

وفاقی وزیر ریاض پریزادہ نے کہاکہ سپورٹس کیلئے حکومت تمام صوبوں میں اقدامات کررہی ہے پی سی بی کے حوالے سے محتسب کو درخواست دی گئی تھی جس پر ان کا فیصلہ موجود ہے اس بحث کو اداروں کے پاس چھوڑا جائے اگرایوان اس کو تحلیل کمیٹی کے پاس بھیج رہی ہے تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کے پاس بھیج دیا ہے۔