پی اے سی کا خراب طیارےF-27کی خریداری کے معاملے کی تحقیقات تین ماہ میں کرانے کا حکم ،میراج تھری سمیت مختلف جہازوں کیلئے خریدے جانیوالے آلات کی دوبارہ انکوائری کی سفارش ، دوران آڈٹ ہمیں بتایا گیا مذکورہ فوکر جہاز ایک فضائی حادثے میں تباہ ہوچکا ہے، آڈٹ حکام کا انکشاف

منگل 6 اکتوبر 2015 08:54

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6اکتوبر۔2015ء)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی(پی اے سی ) نے83کروڑ روپے کی لاگت سے خریدے جانے والے خراب طیارےF-27کی تحقیقات تین ماہ میں کرانے کے احکامات دیدئیے،میراج تھری سمیت مختلف جہازوں کیلئے خریدے جانے والے آلات کی دوبارہ انکوائری کرانے کی سفارش کردی ہے سب کمیٹی کا اجلاس کنونےئر راناافضال کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا کمیٹی میں ممبران قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی اور میاں عبدالمنان نے شرکت کی اجلاس میں وزارت دفاعی پیداوارکے آڈٹ اعتراضات1996-97ء اور خصوصی آڈٹ1990-95ء کا جائزہ لیا گیا اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایا کہ پاک آرمی نے22دسمبر کو چیف آف آرمی سٹاف کیلئے میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی سے 83ملین روپے کی لاگت سے فوکر جہازF-27 خریدا اور خریداری کے اگلے دن جہاز کو زائد قرار دے دیا گیا اور ڈائریکٹر جنرل کو طیارے کو فروخت کرنے کے احکامات دے دئیے گئے،حکام نے پی آئی اے کو جہاز خریدنے کی پیشکش کی مگر پی آئی اے حکام نے مذکورہ طیارہ خریدنے سے انکار کردیا،بعد ازاں ڈائریکٹر جنرل نے کھلی بولی کے ذریعے جہاز کو فروخت کرنے کی کوششیں کی مگر کسی نے بھی مذکورہ جہاز کو خریدنے کی خواہش کا اظہار نہ کیا،1993ء میں پاکستان نیوی کی ایک ٹیم نے طیارے کا معائنہ کیا اور طیارے کی صورتحال کو انتہائی خطرناک قرار دیدیا ،بعد ازاں ایک انکوائری ٹیم نے بتایا کہ اگر طیارے کی10فیصد رقم بھی فروخت سے وصول ہوئی تو یہ خوش قسمتی ہوگی،بعد ازاں طیارہ پاکستان ائیرفورس کو دے دیا گیا،جہاں پر مرمت کے بعد جہاز کو اڑانے کے قابل بنایا گیا،آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ دوران آڈٹ ہمیں بتایا گیا کہ مذکورہ فوکر جہاز ایک فضائی حادثے میں تباہ ہوچکا ہے اور حادثے میں سابق ائرچیف سمیت کئی اعلیٰ افسران شہید ہوگئے تھے تاہم بعد میں دوبارہ بتایا گیا کہ جہاز اس وقت بھی ٹھیک ہے اور پرواز کے قابل ہے اس سلسلے میں لیفٹیننٹ جنرل(ر) طلعت مسعود کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی انکوائری میں غلط منصوبہ بندی اور مس مینجمنٹ کی وجہ سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے،سب کمیٹی نے معاملے کی مزید چھان بین کیلئے تین ماہ کا وقت دے دیا ہے