نیب بدعنوانی کے خاتمے اور بلا تفریق احتساب کیلئے زیرو ٹالیرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، قمر زمان چوہدری ،ادارے نے قیام سے لے کر اب تک بدعنوان عناصر سے لوٹے گئے 264.4 ارب روپے وصول کئے ہیں جو کہ ریکارڈ کامیابی ہے،پلڈاٹ اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسے اداروں نے نیب کی کارکردگی کو سراہا ہے جو کہ حوصلہ افزاہے، چیئرمین نیب کا پولیس ٹریننگ کالج سہالہ میں نیب کے زیر تربیت تفتیشی افسران سے خطاب

منگل 6 اکتوبر 2015 08:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6اکتوبر۔2015ء) قومی احتساب بیورو نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری نے کہا ہے کہ نیب ملک سے بدعنوانی کے خاتمے اور بلا تفریق احتساب کے لئے زیرو ٹالیرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی احتساب بیورو نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بدعنوان عناصر سے لوٹے گئے 264.4 بلین روپے وصول کئے ہیں جو کہ ریکارڈ کامیابی ہے۔

پلڈاٹ اور ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل جیسے اداروں نے نیب کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ یہ نیب کے لئے حوصلہ افزاء ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار نظم و نسق کے تناظر میں انسداد بدعنوانی کو قومی ترقیاتی ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے۔ پلاننگ کمیشن نے بدعنوانی کے معاملے کو گیارہویں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ کا حصہ بنایا ہے۔ پولیس ٹریننگ کالج سہالہ میں نیب کے زیر تربیت تفتیشی افسران سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرپشن کے ذریعے لوگوں کی محنت سے کمائی گئی رقم لوٹ لی جاتی ہے جس سے وہ ضروری خدمات کے حصول میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی آئینی اسمبلی سے افتتاحی خطاب میں کرپشن کو ظاہر قرار دیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن سے ناانصافی کو فروغ ملتا ہے معاشرے کو اپنے بنیادی حقوق نہیں ملتے۔ عوام کو مختلف شعبوں میں اپنے حقوق کے حصول کے لئے کرپشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس وجہ سے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ کرپشن کو تلاش کیا جائے، اس کی تحقیقات کی جائیں اور بدعنوانی پر سزا دلوائی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کو بدعنوانی کے خاتمے کے لئے قائم کیا گیا تھا اور یہ مکمل لگن کے ساتھ اپنا یہ فرض نبھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ نیب کرپشن کے خاتمے کے لئے زیرو ٹالیرنس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بلا امتیاز کارروائی کر رہی ہے۔ نیب نے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے کے لئے معیاری طریقہ کار تشکیل دیا ہے، لوگوں کو بڑے پیمانے پر لوٹنے کے مقدمات نیب آرڈیننس کے تحت جرم ہیں ۔

نیب نے بڑے مالی سکینڈل حل کر کے اصل متاثرین کو ان کی لوٹی گئی رقم واپس دلوائی ہے۔ ملک بھر میں نیب کے سات علاقائی دفاتر بدعنوانی کے خاتمے کا اپنا قومی فرض ادا کر رہے ہیں تاکہ قوم کو کرپشن سے نجات دلائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے ہر شعبہ کے افسران کرپشن کے خاتمے کے لئے بالخصوص گزشتہ دو سال سے اپنے فرائض انتہائی محنت سے ادا کر رہے ہیں۔

2014ء میں نیب نے کرپشن کے خاتمے کے لئے نئے عزم اور کوششوں کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لئے ادارہ جاتی اصلاحات کی گئیں۔ مختلف شعبوں کو دوبارہ فعال بنایا گیا اور 2014ء میں 260 افسران کو بھرتی کر کے انسانی وسائل کو پورا کیا گیا، ہمارے یہ زیر تربیت افسران بھی فیلڈ کا حصہ بن کر اسے مزید مضبوط کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کا کوئی بھی افسر مقدمہ کے دوران اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔

تحقیقات کو شفاف بنانے کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا نظریہ متعارف کرایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے گزشتہ سال عوام سے لوٹے گئے18.831 ملین روپے وصول کئے جبکہ اپنے قیام سے لے کر اب تک بدعنوان عناصر سے لوٹی گئی4 264. بلین روپے کی رقم وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔ نیب کو 2014ء میں 40 ہزار 77 درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ 2013ء میں 19900 درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔

ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2013ء کے مقابلے میں 2014ء میں نیب کو دوگنا شکایات موصول ہوئیں۔ یہ لوگوں کا نیب پر اعتماد کا اظہار ہے۔ نیب نے 2014ء کے دوران 585 انکوائریاں، 188 انوسٹی گیشنز مکمل کیں جبکہ 2013ء کے دوران 243 انکوائریاں اور 129 انوسٹی گیشنز مکمل کی گئیں۔ اسی طرح 2014ء میں احتساب عدالتوں میں 208 مقدمات دائر کئے گئے جبکہ 2013ء میں 135 مقدمات دائر کئے گئے تھے۔

نیب نے 2014ء میں رضاکارانہ واپسی کے ذریعے 5.408 بلین روپے وصول کئے گئے جبکہ 2013ء میں 2.7 بلین روپے رضاکارانہ واپسی کے ذریعے وصول کئے گئے جبکہ پلی بارگین کے ذریعے 2014ء میں 13.423 ارب روپے وصول کئے گئے جبکہ 2013ء میں 50 کروڑ روپے وصول کئے گئے۔ قمر زمان چوہدری نے کہا کہ پلڈاٹ رپورٹ کے مطابق 42 فیصد لوگ نیب پر اعتماد کرتے ہیں جبکہ 30 فیصد پولیس اور 29 فیصد سرکاری افسران پر اعتماد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پلی بارگین سے متعلق لوگوں میں غلط نظریہ پایا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے کوئی مالی فائدہ ہوتا ہے یا جس طرح کمرشل ادائیگیوں کے لئے ڈسکاؤنٹ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ نیب لوگوں کو مالی فائدہ دے کر چھوڑ دیتا ہے۔ یہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ نیب آرڈیننس کے سیکشن 25 کے تحت کوئی بھی بدعنوان شخص انکوائری اور انوسٹی گیشن کے دوران رضاکارانہ واپسی اور پلی بارگین کے لئے درخواست دے سکتا ہے تاہم اسے لوٹی گئی رقم بمع سود 3 قسطوں میں ادا کرنا ہوتی ہے۔

پلی بارگین کے بعد ملزم کو 10 سال کے لئے کسی بھی عہدہ کے لئے نااہل قرار دیا جاتا ہے اور اسے سرکاری عہدہ سے فوری طور پر ہٹا دیا جاتا ہے اور وہ دس سال کے لئے بینک سے قرضہ نہیں لے سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پلی بارگین کے بارے میں نیب کوئی فیصلہ نہیں کرتا، یہ متعلقہ احتساب عدالت حقائق اور شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے پلی بارگین کو رد کرنے یا قبول کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔

صرف نیب ہی کا واحد قانون ہے جس کے ذریعے لوٹی گئی رقم وصول کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے قانون کے ذریعے دھوکہ دہی سے لوٹی گئی رقم کبھی واپس نہیں لی گئی۔ نیب نے ڈبل شاہ، مضاربہ اسکینڈل، ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے اسکینڈل اور فاریکس کمپنیوں کے اسکینڈل متاثرین میں اربوں روپے وصول کر کے تقسیم کئے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں نوجوانوں میں کرپشن کے خلاف آگاہی فراہم کرنے کیلئے نیب اور ایچ ای سی کے تعاون سے کردار سازی کی 4 ہزار 30 انجمنیں قائم کی گئی ہیں۔

نیب نے نوجوانوں کو کرپشن کے برے اثرات سے آگاہ کرنے کیلئے ایچ ای سی کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کو پہلی بار نظم و نسق کے تناظر میں ترقیاتی ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا ہے، پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے 11ویں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے میں کرپشن کے خاتمہ کو شامل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انوسٹی گیشن بیسک انڈیکشن کورس 7 میں تربیت حاصل کرنے والے افسران انوسٹی گیشن کے جدید طریقوں سے آگاہی حاصل کریں گے۔

یہ کورس زیر تربیت افسران کی کردار سازی کی ذمہ داری، شفافیت، ثابت قدمی اور غیر جانبداری پیدا کرے گا۔ نوجوان افسروں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ریسرچ ڈویژن حسنین احمد نے ٹریننگ کے اغراض و مقاصد بیان کئے۔

متعلقہ عنوان :