سلمان تاثیر قتل کیس، واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ توہین رسالت کا مقدمہ ہے،سپریم کورٹ،بادی النظر میں ممکن ہے کہ سلمان تاثیر نے قانون کے بارے میں تحفظات بیان کیے ہوں ،گستاخی نہ کی ہو، جسٹس آصف سعید،سلمان تاثیرکو سزا یافتہ آسیہ بی بی کا دفاع کرنے،ناموس تحفظ رسالت قانون کے بارے ناخوشگوار جملے کہنے پر قتل کیا گیا،وکیل ممتاز قادری

منگل 6 اکتوبر 2015 08:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6اکتوبر۔2015ء) سپریم کورٹ میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت آج منگل کو بھی جاری رہے گی جبکہ ممتاز قادری کے وکیل میاں نذیر اختر نے دلائل میں موقف اختیار کیا ہے کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا اور سزا یافتہ آسیہ بی بی کا دفاع کرنے اور اس پس منظر میں ناموس تحفظ رسالت قانون کے بارے ناخوشگوار جملے کہنے پر قتل کیا گیا وہاں موقع پر موجود سیکیورٹی اہلکاروں نے ممتاز قادری کے اس اقدام کو درست خیال کرتے ہوئے اس کے خلاف کوئی کارروائی تک نہیں کی دہشت گردی کی دفعہ نہیں لگتی ہے۔

3 رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ بادی النظر میں ممکن ہے کہ سلمان تاثیر نے قانون کے بارے میں تحفظات بیان کیے ہوں اور گستاخی نہ کی ہو پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ توہین رسالت کا مقدمہ ہے اس کے بعد باقی دلائل کا جائزہ لیں گے۔

(جاری ہے)

فوجی عدالتوں کے قیام کے وقت بعض لوگوں نے اس کو دیگر عدالتوں کے متوازی قرار دے کر اس کا قیام چیلنج کیا تھا کیا اس قانون کے خلاف بات کرنے والے ججز کے خلاف عذرداری کا مقدمہ درج ہو سکتا ہے قانون پر بات کرنا جمہوری ہے مگر یہاں بات ناموس رسالت کی ہے۔

انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دیئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملزم خود کہہ رہا ہے کہ ایک مجلس میں خطاب سے اثر لے کر اس کا ذہن بن چکا تھا کہ وہ یہ اقدام کرے گا۔ وکیل نے کہا کہ وقاص اچھا گواہ تھا 29 گواہ پیش ہی نہیں ہوئے۔ تفتیش میں 11 گواہوں کی بات کی گئی تھی ہمارے پاس اس وقت کا گواہ نہیں تھا۔ وکیل نے ممتاز قادری کا تمام تر بیان پڑھکر سنایا۔

لگتا تھا کہ پراسیکیوشن کو گواہوں نے دباؤ پر ان کی مرضی کا بیان دیا۔ ممتاز قادری پر جرح کے لئے انہیں طلب نہیں کیا گیا۔ جسٹس آصف نے کہا کہ ایک شخص 28 گولیاں چلاتا ہے باقی لوگ بھی اس کو تحفظ فراہم کرتے ہیں گولیاں چلا کر کام ختم کرتا ہے اسلحہ زمین پر رکھتا ہے اور لیٹ جاتا ہے شک تو پڑتا ہے کہ سب ملے ہوئے تھے وکیل نے کہا کہ سارے مطمئن تھے مگر ڈر کے مارے بات نہیں کر رہے تھے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ قتل کرنے کا معاملہ تو سب کے سامنے ہوا۔ اس کے پس پردہ کیا محرکات تھے۔ وکیل نے کہا کہ ملزم تو سب کچھ مان چکا ہے جسٹس آصف نے کہا کہ کون مرا؟ جس نے ایسا کیا ہے اس کی اصل قانونی اور اخلاقی بنیاد کیا تھی کیونکہ ملزم کے بھی حقوق تھے۔ گواہوں نے اپنی حد تک بات کی عینی گواہوں کی گواہی صرف فائرنگ کی حد تک تھی۔ وکیل نے کہا کہ بعض مقدمات میں اچانک کا معاملہ نہیں بھی ہے تب بھی فائدہ دیا گیا ہے۔

ہم نے تو عدالت کو کہا ہے کہ اچانک کا معاملہ ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سزائے موت کا مقدمہ نہیں ہے۔ سوال پھر یہی آ جاتا ہے حقائق اور قانونی وضاحت کیا ہو سکتی ہے شواہد دیکھنا ہوں گے۔ پریس کانفرنس کی اس کا قانونی جائزہ لینا ہو گا۔ ان دو پہلو کے گرد سارا مقدمہ گھوم رہا ہے ان کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ آپ تاریخ بیان کریں گے مگر اس سے قبل حقائق دیکھنا ہوں گے اس کے بعد ہی مذہبی اور دیگر حوالوں سے بات کی جا سکتی ہے۔

اخبارات کی حد تک یہ الفاظ نہیں تھے جس کی وجہ سے مارا گیا۔ اگر ناموس رسالت کی وجہ سے مارا ہے یہ ثابت ہونے کے بعد ہی اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے پہلے تو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ یہ ناموس رسالت کا مقدمہ ہے۔ گواہ نمبر گیارہ نے کہا کہ ملزم اور مقتول فیس ٹو فیس تھے۔ مگر دوسری طرف وہ کہہ رہا ہے کہ ان کے آپس میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی بعد ازاں ملزم خود کو ناموس رسالت کی طرف لے گیا۔

وکیل نے کہا کہ مقتول کے سامنے کے حصے پر زیادہ تر زخم ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں آمنے سامنے تھے۔ شیخ وقاص گواہ کو اس سلسلے میں سرے سے پیش ہی نہیں کیا گیا۔ بعد میں کچھ گولیاں کمر پر بھی ماری گئی تھیں۔ ساری فورس ہے کسی نے کوئی حرکت نہیں کی سب کے پاس اسلحہ ہے کسی نے کوئی مداخلت تک نہ کی تھی8، 13‘ 15 اور 30 فٹ پر گواہ شیخ وقاص تھا۔ ملزم چاہتا تھا کہ اس کی فائرنگ سے کوئی اور ہلاک نہ ہو صرف سلمان تاثیر ہی نشانہ تھے باقیوں سے اس نے کہا کہ آپ فائر نہ کریں آپ سے ان کی کوئی دشمنی نہیں ہے۔

اگر کوئی کوشش کرتا تو سلمان تاثیر بچ سکتا تھا جسٹس آصف نے کہا کہ ان گواہوں پر بھی شک تھا کہ وہ ملزم کو بچا سکتے تھے۔ وکیل نے کہا کہ گواہوں نے اچانک فائرنگ کی بات کی ہے اسے دیکھنے کی بات نہیں کی ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ کیا وہ اب بھی نوکری پر ہیں۔ وکیل نے کہا کہ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ جسٹس دوست نے کہا کہ ایک شخص نے 12 گھنٹے اسلام آباد پولیس کو نچائے رکھا۔

پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ وہ اب بھی سروس میں ہیں۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ جسٹس دوست نے کہا کہ جہاں تک مارنے کی بات ہے وہ واضح ہے۔ کیون مارا وہ بھی بتلا دیا گیا۔ کیا مقتول نے واقعی بیان دیا تھا کہ جس سے ناموس رسالت کا معاملہ نکلتا ہو۔ کیا قانون کی موجودگی میں کسی بھی شخص کو ناموس رسالت کی وجہ سے مارنے کی اجازت دی جا سکتی ہے یا نہیں۔

جسٹس آصف نے کہا کہ گرفتاری کے فوری بعد کوئی ملزم کا بیان ریکارڈ کیا گیا تھا وکیل نے کہا کہ ٹرائل کے دوران وکیل کو ساری حقیقت بتائی تھی پولیس نے تفتیش میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی۔ جسٹس آصف نے کہا کہ مقدمے میں کچھ جھول بھی آ گیا ہے تحریری بیان میں مجلس کی بات کی تھی کہ جوشیلی تقریر سن کر ہی اس نے ذہن بنا لیا تھا۔ وکیل نے کہا کہ اس واقعے سے کہا گیا کہ خوف پھیلا اور اس کی بنیاد پر دہشت گردی کی شق لگائی تھی جسٹس آصف نے کہا کہ خوف تو ہر واقعے سے پھیلتا ہے۔

ہر جرم سے خوف ضرور پیدا ہوتا ہے اگر کوئی ریپ ہو جائے‘ کوئی بہیمانہ قتل ہو جائے تب بھی خوف کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ وکیل نے کہا کہ گارڈز کی کمی کی وجہ سے اس کی ڈیوٹی لگائی یہ غلط ہے کہ ڈیوٹی اس کی مرضی پر لگائی گئی۔ ملزم نے جو کچھ کہا باقی لوگ اس سے مطمئن تھے کہ جیسے اس نے یہ سب درست کہا ہے۔ 3 ماہ سے گورنر باتیں کر رہے تھے آخری خطاب کے وقت بھی ایک آیت پڑھی گئی تھی جس پر عدالت نے کہا کہ آپ ریکارڈ کے مطابق بات کریں۔

جب آپ یہ کہہ دیں کہ یہ قانون ہی غلط ہے تو اس بارے معاملات مختلف ہو جاتے ہیں آپ نے اپنی زندگی میں بھی فیصلے کئے ہوئے ہیں عدالت نے کہا کہ اس بارے بھی ضرور سنیں گے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ دہشت گردی کا دور ہے اس حوالے سے بھی ضرور تفتیش کی گئی ہو گی۔ گورنر کو کوئی دہشت گرد بھی تو نشانہ بنا سکتا تھا مگر گواہ کہہ رہا ہے کہ ان کیتسلی ہے کہ یہ اس کا ذاتی فعل تھا۔

وکیل نے کہا کہ مارکیٹ میں کافی رش ہوتا ہے کسی سے بات نہیں کی گئی ہے۔ عدالت نے کہا کہ سب لوگ دیکھ رہے تھے واضح تر معاملات تھے۔ وکیل نے کہا کہ آسیہ بی بی کو سزا سنانے کے بعد یہ سارا معاملہ ہوا تھا۔ ہائی کورٹ میں بہت کچھ کہا گیا تھا اس کی شکل تک بگاڑ دی گئی تھی اپیل کو مناسب طریقے سے فیصلے نہیں دیا گیا۔ شہادت کو چھوڑ دیا گیا اور ہماری باتوں کو بگاڑا گیا۔

شیخ وقاص کو پیش کر دیا جاتا تو معاملات واضح ہو جاتے۔ وکیل نے کہا ناموس رسالت کے قانون کے خلاف بات کرنے پر ہی سلمان تاثیر کو مارا گیا۔ گواہ کہہ رہا ہے کہ گورنر نے یہ کہا تھا۔ عدالت نے کہا کہ پہلے اخباری بیان کے تراشے دیکھ لیتے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبون میں خبر آ ن لائن نیوز نے جاری کی تھی۔ کیا رپورٹر پر جرح کی گئی تھی تو بتایا گیا کہ ان پر جرح نہیں کی گئی۔

یہ رپورٹ تو بعد کی ہے جب سلمان تاثیر مارے جا چکے تھے۔ خبر میں ان کے دیگر تقاریر کا حوالہ دے کر کہا گیا تھا کہ وہ پہلے بھی ناموس رسالت قانون بارے بات کرتے رہے تھے۔ خواجہ شریف نے کہا کہ بیان پہلے دیا گیا تھا جس کے بعد سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ حسن چوہدری نے کراچی میں اپنی خبر میں کہا ہے کہ یہ سب وہ پہلے بھی کہتے رہے ہیں۔

5 جنوری 2011ء کو چھپنے والی خبر نہیں تھی نہ ہی رپورٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ وہاں موقع پر موجود تھے اور انہوں نے یہ الفاط خود سنے تھے۔ 23 نومبر 2010ء کو شائع ہونے والی خبر کا بھی جائزہ لیا گیا وکیل نے کہا کہ ایک قانون جو اسلامی تعلیمات کے مطابق بنایا گیا تھا۔ چاہے وہ آمر ہی کیوں نہ جاری کرے اس کے خلاف بات نہیں کہی جا سکتی۔ جسٹس دوست نے کہا کہ اصل میں شاید سلمان تاثیر قانون کے غلط استعمال کی بات کر رہے تھے وکیل نے کہا کہ آسیہ بی بی نے توہین کی تھی جس کو دی گئی سزا پر تنقید کی تھی اور اس بارے الفاط کہے تھے یہ بات بذات خود ناموس رسالت کے خلاف جاتی ہے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ جو قانون حق بنایا جاتا ہے عوامی نمائندے بناتے ہیں عوام الناس کو بھی موقع ملنا چاہئے کہ وہ ان کے پہلوؤں پر بات کی جائے فوجی عدالتوں کو بھی چیلنج کیا گیا جس نے بھی اس کو چیلنج کیا وہ غدار نہیں کہلایا جا سکتا سب ججوں پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی کسی قانون کو غلط کہنا جمہوری حق ہے۔ یہاں تحفظات کی بات کی گئی ہے حدود آرڈیننس کا کتنا غلط استعمال ہوا۔

2005ء میں ایک حد یہ بھی آ گئی کہ معاشرے نے اس کو مسترد کر دیا بعد ازاں اس میں ترمیم کر دی گئی اس میں سیف گارڈز دے دیئے گئے جس قانون کو غلط کہا جا رہا ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ ناموس رسالت کے خلاف نہیں۔ لوگوں نے کہا تھا کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتیں ہیں مگر کچھ ججز نے یہ مانا اکثریت نے نہیں مانا۔ 1984ء میں ناموس رسالت قانون 295 سی بنایا گیا تھا اس سے تو لگتا ہے کہ پہلے قانون نہیں تھا اب ہے پہلے گستاخی ہوتی تھی اب نہیں ہو سکتی۔

جائیداد کی خرید و فروخت میں بھی لوگ ایسا کر رہے ہیں پولیس کی مدد سے دو گواہ بنا لیتے ہیں کہ اس نے ناموس رسالت کے خلاف بات کی ہے۔ اس کو کون بچائے گا۔ وکیل نے کہا کہ اس قانون میں 1996ء میں ترمیم آئی تھی۔ بعد ازاں وکیل نے ملزم کا 245 کا بیان پڑھا۔ عدالت نے کہا کہ ملزم کے بیان سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ وہ باقیوں کو بھی خبردار کر رہا ہے کہ اگر وہ بھی کچھ کریں گے تو ان کا بھی یہی انجام ہوتا ہے۔

وکیل نے کہا کہ وہ فطرت کی بات کر رہا تھا کہ جو بھی اللہ کے نبی کے بارے میں بات کرے گا اس کا انجام اسی طرح سے ہو گا۔ عدالت نے کہا کہ کیا یہ انفرادی اقدام تھا یا پھر اس طرح سے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ یہ عام بات کر رہا ہے قدرت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ملزم امریکہ سے بھی ناراض لگتا ہے۔ ہم مطلب اخذ نہیں کر رہے ہیں۔

وکیل نے کہا کہ جو زیادہ بار الفاظ عدالتی فیصلوں میں کہے گئے ہیں آپ بھی اس کے مطابق اس کا جائزہ لیں گے۔ سلمان تاثیر نے 3 شادیاں کیں ایک بھارت میں بھی کی تھی اور سکھ خاتون سے خفیہ شادی کی تھی۔ اس بات کا حوالہ ایک مصنف نے اپنی کتاب میں بھی دیا ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ زنا کی بات کر کے ملزم یہ کہنا چاہتا ہے کہ سلمان تاثیر ایک برا شخص تھا زنا کرتا تھا شراب نوشی کرتا تھا اس بیان سے آپ کا مقدمہ تباہ ہو جائے گا جس سے واضح ہوتا ہے۔

ملزم نے ایک بات نہیں کی اور بھی الزامات لگائے ہیں۔ ناموس رسالت سے معاملہ آگے چلا گیا ملزم نے ساری تاریخ ہی کھول دی جسٹس دوست نے کہا کہ میٹرک تک پڑھا ہوا سلمان تاثیر کے بیٹے کی کتاب کس طرح سے پڑھ رہا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس سے کیس میں غیر ضروری بات آئی ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ اس پیراگراف سے میں ڈسٹرب ہوا ہوں مرنے والے کے خلاف بعد میں ایسی باتیں کیوں کی گئیں۔

وکیل نے کہا کہ اس وقت کے وکیل نے یہ لکھوا دیا ہو گا۔ ملزم تو اتنا پڑھا لکھا نہیں تھا کتاب بھی انگریزی میں تھی۔ دونوں میں جملوں کا استعمال ہوا تب ملزم نے فائرنگ کر دی۔ عدالت نے کہا کہ جو بات وہ اپنے بیان میں کہہ رہا ہے وہ گواہوں نے نہیں کہی۔ وہاں امتی ہونے اور قانون بارے بات کی گئی ہے مگر اس بیان میں ایسی بات نہیں کی گئی اگر یہاں وہ الفاظ بول دیتا تو بات واضح ہو جاتی۔

عدالت نے کہا کہ تمام گواہ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ مارنے سے قبل سلمان تاثیر اور قادری کے درمیان کچھ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ وکیل نے کہا کہ یہ سب اچانک ہوا۔ اس پر جسٹس دوست نے کہا کہ وہ تو اپنے بیان میں پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ کسی تقریر سے متاثر ہوا تھا وکیل کے دلائل جاری تھے مگر عدالتی وقت ختم ہونے کی وجہ سے سماعت آج منگل تک ملتوی کر دی گئی۔