نئی مجوزہ پانچ سالہ آٹو پالیسی ،تین سالہ پرانی گاڑیوں کی کمرشل درآمد کی اجازت کے ساتھ موٹرز ڈیلرز کیلئے مزید مراعات کی تجویز زیر غور

منگل 29 ستمبر 2015 09:00

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29ستمبر۔2015ء )حکومت کی جانب سے نئی مجوزہ پانچ سالہ آٹو پالیسی میں تین سالہ پرانی گاڑیوں کی کمرشل درآمد کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ موٹرز ڈیلرز کیلئے مزید مراعات کی تجویز زیر غور ہیں جس کے نتیجے میں مقامی کار اسمبلرز کی اجارہ داری ختم ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ مقامی اسمبلرز نہ صرف لوکلائزیشن میں اضافے بلکہ کاروں کی قیمتیں کم کرنے میں بھی مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔

تفصیلات کے ملک میں مقامی کار اسمبلرز کی اجارہ داری اور مقامی طور پر تیار ہونے والی کاروں کے نرخوں میں مسلسل اضافے پر پہلے ہی مسابقتی کمیشن اور اسٹیٹ بینک بھی اپنی ایک رپورٹ میں شدید تحفظات کا اظہار کرچکی ہے۔ذرائع کے مطابق بعض حکومتی حلقوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ مقامی اسمبلرز نہ صرف لوکلائزیشن میں اضافے میں ناکام رہے ہیں بلکہ کاروں کے نرخوں میں کمی کیلئے بھی اقدامات نہیں کرسکے ہیں،ایسے حلقوں کا کہنا ہے کہ مقامی کار ساز ادارے مینو فیکچرنگ کے بجائے اسمبلرز کا کردار ادار کررہے ہیں اور مراعات مینو فیکچرزز کی حاصل کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نئی مجوزہ آٹو پالیسی میں تین سالہ پرانی گاڑیوں کی کمرشل درآمد کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ درآمد کنندگا ن کیلئے مزید مراعات دینے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں،تاہم مقامی اسمبلرز کی لابی حرکت میں آگئی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ گاڑیوں کی درآمد کے بجائے انہیں ہی تمام تر مارکیٹ پر حکمرانی کرنے کی اجازت دی جائے۔

موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ اس وقت مقامی اسمبلرز 800سی سی کار کی قیمت 7لاکھ روپے،1000سی سی کار کی قیمت ساڑھے دس لاکھ سے چودہ لاکھ تک اور 1300سی سی کار کی قیمت 18لاکھ اور زائد تک وصول کررہے ہیں۔موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ مقامی کار اسمبلرز کی اجارہ داری سے متعلق مسابقتی کمیشن اور اسٹیٹ بینک پہلے ہی رپورٹ جاری کرچکے ہیں جس پر مزید کارروائی کے بجائے مقامی اسمبلرز کو اور چھوٹ دیدی گئی ہے اور مقامی اسمبلرز نہ صرف لوکلائزیشن میں اضافے میں ناکام رہے ہیں بلکہ کاروں کی قیمتیں کم کرنے کیلئے بھی کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھاسکے ہیں۔

متعلقہ عنوان :