لال مسجد کمیشن رپورٹ،سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے 7 روز میں جواب طلب کرلیا،لال مسجد کیس میں جمع کرائی گئی حساس دستاویزات کا بھی جائزہ لیں گے اور درخواست گزار کو بھی رسائی دیں گے، جسٹس اعجاز افضل

بدھ 23 ستمبر 2015 09:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23ستمبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے لال مسجد کمیشن رپورٹ میں خفیہ دستاویزات سے متعلق طارق اسد کی درخواست پر وفاقی حکومت سے 7 روز میں جواب طلب کیا ہے۔ جبکہ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا ہے کہ لال مسجد کیس میں جمع کرائی گئی حساس دستاویزات کا بھی جائزہ لیں گے اور درخواست گزار کو بھی رسائی دیں گے مگر ہم چاہتے ہیں کہ پہلے حکومت جواب داخل کرا دے۔

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیئے ہیں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ لال مسجد آپریشن کیس میں طارق اسد ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ اس دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور کہا کہ جامع جواب مانگا گیا تھا مجھے آج ہی ہدایت ملی ہے فائل کر دیں گے وقت دے دیں۔ اسلام آباد سے متعلقہ معاملہ ہے اے جی اسلام آباد کو نوٹس جاری ہونا چاہئے تھا۔

(جاری ہے)

کمیشن رپورٹ آئی تھی حساس دستاویزات کھولنے کی استدعا کی گئی تھی۔ 18 اپریل 2013ء کی بات کی گئی ہے۔ جسٹس فائز نے کہا کہ اپ نے اس پر کیا جواب داخل کرانا ہے طارق اسد نے کہا کہ خفیہ دستاویزات کا تذکرہ کمیشن رپورٹ میں نہیں ہے۔ اس کا صرف عدالتی حکم نامے کے پیراگراف نمبر 5 میں تذکرہ ہے جسٹس فائز نے کہا کہ جب رپورٹ میں ان دستاویزات کا تذکرہ نہیں ہے تو پھر یہ کہاں سے دستاویزات آ گئی ہیں۔

طارق اسد نے کہا کمیشن کی کارروائی میں بعض دستاویز کو سربمہر کرنے کا کہا گیا تھا۔ ان کو کھولنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ جسٹس فائز نے کہا کہ یہ رپورٹ آ گئی ہے اس کے ساتھ ہو سکتا ہے خفیہ اداروں کی کوئی رپورٹس بھی ہوں گی۔ آپ نے رپورٹ پڑھ لی ہے آپ بتائیں کہ کیا یہ رپورٹ غلط ہے یا صحیح ہے۔ طارق اسد نے کہا کہ اس بارے 40 صفحات اور 65 صفحات کا جواب داخل کرا چکا ہوں۔

عدالت اس کا بھی جائزہ لے لے۔ جسٹس فائز نے کہا کہ یہ آپ کیسے فرض کر سکتے ہیں کہ ہم نے رپورٹ نہیں دیکھی۔ طارق اسد نے کہا کہ ہم انصاف کے حصول کے لئے ان نکات تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اپ نے کہا تھا کہ بعض لفافے ہیں جنہیں ابھی تک نہیں کھولا گیا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان نے یہ کیس سنا تھا اور اس بارے رپورٹ مانگی تھی اب جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل جواب داخل نہیں کرا سکے ہیں یہ وقت مانگ رہے ہیں جسٹس دوست محمد نے کہا کہ ہمیں کیا پتہ آئی ایس آئی‘ آئی بی سمیت دیگر اداروں نے رپورٹ دی ہوں ممکن ہے کہ وہ ان کو کھولنے کی اجازت نہ دیں اور اس کے استثنیٰ کی اجازت حاصل کر رکھی ہو۔

طارق نے کہا کہ ہمیں ان تک رسائی دی جائے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ ہم اپ کو رسائی دیں گے۔ مگر پہلے ڈپٹی اٹارنی جنرل کا جواب تو آجائے اس دوران لال مسجد واقع میں جاں بحق ہونے والی خاتون کے خاوند پیش ہوئے اور کہا کہ ان کو تو 10 سال کے فیصلے نہیں مل سکا کیا ان کو فیصلہ دیا جائے گا اور کتنا عرصہ انتظار کروں۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ آپ نے انتظار کیا ہے تھوڑا اور کر لیں۔ عدالت نے آرڈر لکھوایا کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب داخل کرانے کے لئے وقت مانگا تھا انہیں وقت دیا جاتا ہے جو اب 1 ہفتے میں دیا جائے۔ عدالت نے سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ عنوان :