چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے لامحدوداختیارات ، گڈ گورننس کو ایک طرف رکھ دیا گیا، دونوں اداروں کے سیکرٹریٹس کے ملازمین قواعد وضوابط سے زیادہ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے بنائے گئے اصولوں کو ماننے پر مجبور ،انکار پر شوکاز نوٹس، ترقی کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں ،قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو ڈیپوٹیشن پر افسران کے ذریعے چلا یا جا نے لگا ،این جی اوز مافیا کا عمل دخل بڑھ گیا ، حساس ریکارڈ تک بھی رسائی حاصل ، تمام اہم عہدوں پر سپیکر کی پسند کے افسران تعینات ہیں،نجی ٹی وی پروگرا م کے میزبان صدیق ساجد کا انکشاف

پیر 21 ستمبر 2015 09:57

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔21ستمبر۔2015ء) چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے لامحدوداختیارات میں گڈ گورننس کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان دونوں اداروں کے سیکرٹریٹس کے دوہزار کے قریب ملازمین قواعد وضوابط سے زیادہ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے بنائے گئے اصولوں کو ماننے پر مجبور ہیں اور اگر کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو پھر اسے شوکاز نوٹس ملتا ہے اور ترقی کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں ، ان سیکرٹریٹس کے اپنے افسران میں سے کم ہی سیکرٹری تک پہنچے ہیں البتہ باہر سے ڈیپوٹیشن پر آنے والے یہاں آکر انتظامی امور بھی چلاتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ان سیکرٹریٹس کی ملازمت میں ضم بھی ہوجاتے ہیں کیونکہ جو بھی سپیکر یا چیئرمین سینیٹ آتا ہے وہ ہمشیہ اعلی عہدوں پر اپنی ٹیم لیکر آتا ہے اور اس وقت قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو تو ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کے ذریعے چلا یا جا رہا ہے،این جی اوز مافیا کا عمل دخل سیکرٹریٹ میں بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور انھیں حساس ریکارڈ تک بھی رسائی حاصل ہے۔

(جاری ہے)

تمام اہم عہدوں پر سپیکر کی پسند کے افسران تعنیات ہیں۔نجی ٹی وی کے پروگرا م میں اظہار خیال کرتے ہوئے میزبان صدیق ساجد نے انکشاف کیا کہ سیکرٹری قومی اسمبلی محمد ریاض سابق سپیکر ایاز صادق کے ذاتی دوست ہیں ،کاروباری امور میں بھی سپیکر کے مدد گار رہے ہیں اس لئے انھیں وہ سیکرٹری تعنیات کروانے میں کامیاب رہے ہیں حالانکہ انھیں قانون سازی یا انتظامی امور کا کوئی تجربہ نہیں ، کسٹم اینٹلی جنس سے انھیں اسمبلی لایا گیا ہے عبد الجبار علی کو ریلوے سے لا کر اسمبلی میں ایڈیشنل سیکرٹری لگا دیا گیا ہے چونکہ سپیکر کا سکریپ سمیت کیمکیل کا بھی بزنس ہے اور کہا جاتا ہے کہ عبد الجبار علی بھی ان کے خاص دوستوں میں سے ہیں اور ایڈمن کے معاملات کو نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ اگر کوئی ملازم اپنے حق کی بات کرے تو اسے شوکاز بھی دے دیا جاتا ہے چند ماہ قبل نئے قواعد بنانے اور ترقیوں و بھرتیوں کے لئے ٹیسٹ کی شرط رکھی گئی تو پہلی بار اسمبلی سیکرٹریٹ کے چار سوملازمین نے احتجاج کیا نعرے لگائے ان کو انصاف تو نہ ملا البتہ ان میں سے بعض کو آج بھی عبد الجبار علی کے نوٹسز کا سامنا ہے اور وہ ملازمین اپنی ملازمت بچانے کے درپے ہیں جن افسران کو باہر سے لاکر ترقیاں دی گئیں ان سے متاثر ہونے والے اکثر عدالتوں میں چلے گئے ہیں اور اس وقت کیسز چل رہے ہیں ایسے کیسزکو نمٹانے کے لئے جوائنٹ سیکرٹری لطیف قریشی کو ڈیپوٹیشن پر لاکر اب اسمبلی کے خلاف مقدمات کا نگران بنایا گیا ہے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری شریف اللہ وزیر کو بھی دوسرے ادارے سے لایا گیا ہے ، ان کی سفارش اپوزیشن لیڈر نے کی تھی پی اے سی کے امور سے وہ کتنے واقف ہیں وہ کوئی بھی شخص پی اے سی کے اجلاس میں بیٹھ کر دیکھ سکتا ہے اسی طرح شفقت علی کو دفتر خارجہ سے لا کر جوائنٹ سیکرٹری بنا دیا گیا ہے وہ انٹرنیشنل تعلقات کو دیکھتے ہیں پھر ایک افسر شاہد شوکت بھی ڈیپوٹیشن پر آئے ہیں انھیں ، سولر پراجیکٹ کا سربراہ بنا دیا گیا ہے اس افسر سے سی ڈی اے خوش ہے نہ اسمبلی سیکرٹریٹ کیونکہ ان کے معاملات کے حوالے سے بہت کچھ کہا جا رہا ہے پھر سابق سپیکر نے پہلی بار این جی اوز کو اراکین پارلیمنٹ کی استعداد کار بڑھانے کے نام پر پارلیمنٹ ہاؤس تک رسائی دی اور ان این جی اوز کی ریسرچ آفیسرز کو سیکرٹریٹ کے حساس ریکارڈ تک بھی رسائی حاصل ہے ، ان کو سیکرٹریٹ میں لانے میں رکن قومی اسمبلی مریم اورنگزیب اور ایک سینئر وزیر کی صاحبزادی کا بہت عمل دخل ہے کئی ایک کو چند ماہ بعد مستقل یا کنٹریکٹ پر سیکرٹریٹ میں ہی گریڈ سترہ میں ریسرچ آفیسر بھرتی کر لیا گیا اور بعد میں سابق سپیکر نے گریڈ سولہ سے اوپر کی بھرتیوں کے لئے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو لازمی قرار دے دیا اب پہلے کی بھرتیوں کی شفافیت کیا ہوگی اس کا کچھ پتہ نہیں ہے دوسری طرف سینیٹ سیکرٹریٹ میں بھی سب اچھا نہیں ہے گوکہ رضا ربانی موجودہ چیئرمین سینیٹ ابھی تک کسی کو بھی ڈیپوٹیشن پر سیکرٹریٹ میں نہیں لائے لیکن دباؤ ان پر بھی بہت زیادہ ہے البتہ سینیٹ کے سابق چیئرمین نیئر بخاری بھی جاتے جاتے سیکرٹریٹ کا پورا بجٹ ہی نمٹا گئے تھے سابق چیئرمین نے بھی سفارش پر عائشہ نور، مد ثر شیر گوندل اور دیگر کو ڈیپوٹیشن پر آنے کی منظوری دی کئی آکر سینیٹ میں ضم ہوگئے موجودہ چیئرمین رضا ربانی نے اسمبلی سیکرٹریٹ سے جعلی ڈگری پر نکالے جانے والے کو پیپس میں نئی نوکری دے دی پیپس کے ای ڈی محمود سلیم محمود انتقال کر گئے تو ان کی جگہ قائم مقام سپیکر مرتضی جاوید عباسی نے بھی اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ذکاء اللہ نامی ڈائریکٹر کو پیپس کا ای ڈی لگا دیا حالانکہ اس پوسٹ پر بھرتی اشتہارات کے ذریعے ہوتی ہے ۔