سینیٹ کمیٹی کا این اے آر سی کی اراضی کے تجارتی استعمال کرنے منصوبے پر تحفظات کااظہار،کمیٹی کا اٹارنی جنرل سے مشاورت کے بعداس معاملے پر سفارشات دینے اورسپریم کورٹ میں جاری کیس میں فریق بننے کا فیصلہ،قومی اثاثے فروخت کرنے کی اجازت نہ دی جائے ،کمیٹی کی سفارش، انجینئرنگ ڈیوپلمنٹ بورڈ کے سی ای او طارق کی زبانی بریفنگ پرسر زنش

جمعرات 17 ستمبر 2015 09:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17ستمبر۔2015ء)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تحفظ خوراک و تحقیق نے سی ڈی اے کی جانب سے این اے آر سی کی اراضی کو رہائشی و تجارتی مقاصد کے استعمال کرنے کے منصوبے پر شدید تحفظات کااظہار کیا ہے کمیٹی نے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے مشاورت کے بعداس معاملے پر سفارشات دینے کا فیصلہ کر لیاہے۔کمیٹی نے سپریم کورٹ میں جاری کیس میں فریق بننے کابھی فیصلہ کیا ہے اور حکومت کو سفارش کی ہے کہ قومی اثاثوں کو فروخت کرنے کی اجازت نہ دی جائے کمیٹی نے انجئرنگ ڈیوپلمنٹ بورڈ کے سی ای او طارق کی جانب سے زبانی بریفنگ دینے پرسر زنش کی۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تحفظ خوراک و تحقیق کا اجلاس چیرمین کمیٹی سید مظفر حسین شاہ کی زیر صدارت بدھ کو پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہواجس میں سینیٹرز محسن لغار ی ظفراللہ خان ڈھاندلا ،مختار دھامرا،ہری رام ،جان کیتھ ولیم،اعظم سواتی ،گل بشرہ ،اور سینیٹ میں این اے آر سی کے معاملے کے محرک سینیٹر سید مشاہد حسین سید کے علاوہ وفاقی وزیر سکندر بوسن سیکرٹری وزارت سیرت اصغرکسان اتحاد کے عہدیداران نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر سی ڈی اے کی طرف سے این اے آر سی کی زمین کی لیز ختم کرنے کی زبانی اطلاع اور بغیر شوکاز نوٹس وزیراعظم کو لیز ختم کر کے رہائشی اور کمرشل پلاٹ بنانے کی سمری پر چیئرمین کمیٹی نے عدالتی طریقہ کار کے تحت سی ڈی اے افسران سے 1975ء سے اب تک لیز پر دی گئی زمینوں زرعی فارموں کے حوالے سے سی ڈی اے آرڈیننس،شرائط، قواعد وضوابط،جرمانہ کرنے کے طریقے،بقایا جات ادائیگی، لیز میں توسیع کے سوالات سے سی ڈی اے افسران کا سر گھما دیا،ان سوالات کا سی ڈی اے افسران کے پاس کوئی تحریری جواب موجود نہ تھا جس پر سینیٹر مشاہد حسین سید نے چیئرمین کمیٹی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اس اہم قومی معاملے کی اصل حقیقت اور مخصوص عناصر کی طرف سے قومی اثاثے کو ختم کرنے کی سازش کو بے نقاب کیا ہے۔

جس پر کمیٹی ممبران نے حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی نے عدلیہ کی طرح قائمہ کمیٹی کو بھی آئینی کمیٹی میں تبدیل کر دیا ہے۔این اے آر سی کی اراضی کو تجارتی مقاصد کیلئے وزیر اعظم کو بھجوائی گئی سمری کے حوالے سے این اے آر سی کے حکام نے آگاہ کیا کہ تما م شرائط پوری کی ہیں،کچھ واجب الادا نہیں لیز میں توسیع کیلئے بار بار خطوط لکھے گئے ہیں قواعد کے تحت این اے آر سی میں انتظامی دفاتر اور این اے آر سی کی زرعی مقاصد کیلئے استعمال ہونے والی گاڑیوں کیلئے پٹرول پمپ بنایا گیا ۔

سی ڈی اے حکام نے آگاہ کیا کہ قواعد کے خلاف تعمیرات کی گئی ہیں اور زرعی مقاصد کیلئے بنائے گئے ادارے میں فصلوں ،سبزیوں ،پھلوں ،بیجوں کی تحقیق کیلئے بھی کام نہیں ہوا،جس پر کمیٹی چیئرمین نے سوال اٹھایا کہ سی ڈی اے کی طرف سے دی گئی لیز کے پلاٹوں اور زمینوں کے مالکان کو خلاف ورزی پر کتنے جرمانے ہوئے اور کتنے پلاٹ منسوخ کئے گئے جس پر آگاہ کیا گیا کہ ایک پلاٹ منسوخ کیا گیا اور 43 کو جرمانے کیے گئے۔

جس پر کمیٹی چیئرمین نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دوہرا معیار ہے کہ ایک طرف صرف جرمانہ اور دوسری طرف ایک منسوخی اور ساتھ ہی قومی اثاثے کی لیز کا خاتمہ غلط ہے۔ہم ہر حال میں این اے آر سی کی حفاظت کریں گے اور اٹارنی جنرل سے بھی مشورہ کر کے سفارش کریں گے ،کمیٹی چیئرمین نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے حوالے سے ممبران سے رائے لی کہ کیا کمیٹی اس معاملے پر ہدایت تجویز یا سفارش کر سکتی ہے،جس پر سینیٹر مشاہد نے کہا کہ سی ڈی اے کا پہلے ہی برا حال ہے این اے آر سی پر قبضہ نہ ہونے دیا جائے۔

سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ قومی اثاثوں کی فروخت کی جازت نہیں دی جاسکتی۔مختار ڈھامرا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے عوامی مفاد میں از خود نوٹس لیا ہے ،کمیٹی قومی مفاد میں سفارش کرے کمیٹی کے اجلاس میں سی ڈی اے افسران نے حمزہ شفقات کے ہر سوال کے جواب میں تحریری ریکارڈ ساتھ نہیں لائے اور این اے آر سی کو زبانی نوٹس بائی لاز کی خلاف ورزی پر دیا گیا اس پر کمیٹی چیئرمین نے سختی سے ہدایت دی کہ پچھلے اجلاس میں بھی تمام ریکارڈ کی تفصیل مانگی گئی تھی ۔

آئندہ اجلاس میں یہ کوتاہی نہیں ہونی چاہیے ،کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اس اہم قومی معاملے پر اٹارنی جنرل سے مشورہ کے بعد سفارشات دی جائیں گی۔ کمیٹی کے اجلاس میں لاہور میں پاکستان کسان اتحاد کی طرف سے کپاس ،چاول اور دیگر فصلوں کی امدادی رقم میں اضافہ ،ٹی سی پی کی طرف سے کپاس اور خام کپاس کی قیمتوں ،زرعی ترقیاتی بنک کے جاری کردہ قرضوں ملت اور غازی ٹریکٹروں کی کارکردگی پر عوامی شکایات کے ایجنڈے پر بھی بحث کی گئی۔

وفاقی وزیر سکندر بوسن نے بتایا کہ یوریا کھاد کی قیمتوں میں اکتوبر کے آخر تک واضع کمی ہو جائے گی اور کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے زراعت کے شعبے میں کم سرمایہ کاری ہو رہی ہے،وفاقی حکومت سے صوبوں نے بجٹ تو لے لئے اخراجات نہیں کئے جا رہے ۔وزیر اعظم پاکستان کے اعلان کردہ زرعی پیکج کے بارے میں یہ تاثر ختم ہونا چایئے کہ یہ پیکج صرف بڑے زمین داروں کیلئے ہے،پیکج بنیادی طور پر نقصانات کا ازالہ اور مدد ہے ،اس سے بھی بڑے پیکج دینگے اور کہا کہ فی ایکڑ پیداواری یونٹ کی دو ہزار رقم کو چار ہزار کر دیا گیا ہے۔

چھوٹے کاشتکاروں کے لئے زیادہ سہولیات فراہم کریں گے وفاقی وزیر سکندر بوسن نے ملت اور غازی ٹریکٹروں کے پرزوں ،انجنوں ،ٹائر ،گیئر کے حوالے سے ملک بھر میں اپنے موبائل نمبر پر آنے والی شکایات کے حوالے سے کہاکہ حکومت کا کسی سے کوئی لین دین نہیں ،کاشتکاروں اور زمین داروں کو کوالٹی سے غرض ہے ۔ٹریکٹر کمپنیاں کوالٹی کو بہتر بنائیں ۔زرعی ترقیاتی بنک کے قرضوں کے حوالے سے بھی سکندر بوسن نے کہاکہ پرائیوٹ بنک زرعی بنکوں سے زیادہ قرضے دے رہے ہیں ۔

سینیٹر ہری رام نے کہا کہ بڑے زمین داروں کو فصلوں میں شدید نقصان کا سامنا ہے ۔کپاس کی قیمت پیداواری لاگت سے بھی کم ہے اور کہا کہ میں اگلے سال کاٹن فیکٹر ی بند کر دونگا اور شوگر اور ٹیکسٹائل ملیں بھی آہستہ آہستہ بند ہوجائیں گی۔سینیٹر اعجاز دھامرا نے ایگری کلچرل انشورنش کی تجویز دی تاکہ کاشتکاروں اور زمین داروں کے نقصان پر بھی مدد مل سکے۔

سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ کاشتکار،زمیندار کو اچھی کوالٹی میں ٹریکٹر ملنے چاہیں ۔اجلاس میں ملت اور غازی ٹریکٹرز کے ذمہ داران نے پرزہ جات اور ٹریکٹروں کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ بہتری کیلئے کوشش کی جائے گی۔کمیٹی اجلاس میں انجنئرنگ ڈیوپلمنٹ بورڈ کے سی ای او طارق کی جانب سے زبانی بریفنگ دینے پر کمیٹی چیئرمین نے سر زنش کی ۔جو چیئرمین کے ہر سوال کے جواب میں یہی جواب دیتے رہے کہ تحریری مواد موجود نہیں زبانی بریفنگ دے سکتا ہوں کمیٹی چیئرمین نے اسوقت طارق پر شدید غصے کا اظہار کیا جب طارق نے چیئرمین کمیٹی کو کہا کہ ٹریکٹروں کی کارکردگی کیلئے تین ہفتے قبل کئے گئے انشپکشن پر اکیلے میں آگاہ کر سکتا ہوں جس پر کمیٹی ممبران نے بھی کہا کہ رویہ غیر پارلیمانی ہے چیئرمین کمیٹی نے سختی سے ہدایت کی کہ ٹریکٹر کی کارکردگی انسپکشن کے لئے استعمال کئے گئے اختیارات اور رپورٹ کے بارے میں آئندہ اجلاس میں تحریری جواب دیا جائے،سیکرٹری وزارت سیرت اصغر نے کہا کہ این اے آر سی کی لیز شدہ زمین پر قواعد کے مطابق سی ڈی اے رولز کے تحت تعمیرات کی گئیں پٹرول پمپ سے وزیر بھی پٹرول حاصل نہیں کر سکتا ۔

اور کہا کہ این اے آر سی کی کارکردگی بھی بہترین ہے،ٹریکٹروں کے حوالے سے سیکرٹری نے کہا کہ ریاستی اداروں کی کمزوریوں کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے،پارلیمنٹ قانون سازی میں مدد کریں اور کہا کہ پاکستان کی زراعت میں اضافہ ہو رہا ہے اور امید ہے کہ یہ تسلسل جاری رہے گا۔کمیٹی اجلاس میں کاشتکاروں اور زمین داروں کی تنظیم کے ممتاز مینثسن نے انکشاف کیا کہ دنیا بھر میں حلال گوشت کا کاروبار 400ارب ڈالر ہے اور بھارت آئندہ چھ ماہ میں تین بلین ڈالرحاصل کرے گا۔اور غازی ملت تریکٹروں کے حوالے سے استعمال ہونے والے ناکارہ پرزہ جات کے ذریعے ثابت کیا کہ انجن ،ٹائر،گیئر اور سپیڈومیٹر کوالٹی سے کم ہیں۔

متعلقہ عنوان :