سرتاج عزیز آج افغانستا ن جائیں گے علاقائی و اقتصادی تعاون کانفرنس میں شرکت اور صدر اشرف غنی سے ملاقات کرینگے ،مشیر خارجہ کے دورے کامقصد افغانستان کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بڑھانا اور امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہے،پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے، افغان حکومت،طالبا ن مذاکرات میں تعطل میں غیر ریاستی عناصر شامل ہیں ،پاکستان امریکہ، بھارت سمیت تمام ممالک سے برابری کے تعلقات چاہتا ہے ،کسی قسم کی شرائط یا ڈکٹیشن قبول نہیں کرینگے،ذرائع

جمعہ 4 ستمبر 2015 09:53

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4ستمبر۔2015ء) وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز آج( جمعہ کو) افغانستان کے ایک روزہ دورہ پر روانہ ہونگے جہاں وہ علاقائی و اقتصادی تعاون بارے کانفرنس میں شرکت کرینگے جبکہ افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات بھی کرینگے ۔مشیر خارجہ کے دورے کا مقصد افغانستان کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بڑھانا اور امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہے ۔

ذمہ دار ذرائع نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ سرتاج عزیز افغان قیادت سے اپنی ملاقاتوں میں خطے کی صورتحال ، امن وامان کے قیام سمیت دیگر باہمی دلچسپی کے علاقائی و عالمی امور پر تبادلہ خیال کرینگے۔ذرائع نے بتایا کہ دورے کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کے رشتے کو بحال کرنا اور دونوں ممالک میں امن کے حوالے سے کوششیں کرنا ہے ،دورے میں سرتاج عزیز افغانستان کے اندر بھارتی عنصر کا اثر زائل کرنے کی بھی کوشش کرینگے جبکہ وہ کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر ہونیوالے حملوں کے پیش نظر سفارتخانے کے عملے کی سکیورٹی کے حوالے سے بھی معاملات بھی اٹھائینگے ۔

(جاری ہے)

ذرائع نے مزید بتایا کہ اگر ملا عمر کی ہلاکت کی خبر سامنے نہ آتی تو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل اب بھی جاری رہتا، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں تعطل میں غیر ریاستی عناصر شامل ہیں جو پاکستان اور افغانستان کو مضبوط ہوتا نہیں دیکھ سکتے ۔ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان کے ساتھ سات جولائی کو ہونے والے مذاکرات کیلئے ایک سال پہلے سے گراؤنڈ تیار کیا گیا جس میں حقانی نیٹ ورک امریکہ چین افغان حکومت اور پاکستان کی طرف سے بھی نمائندگی تھی ۔

انہوں نے بتایا کہ اکتیس جولائی کو مذاکرات کی منسوخی والے دن بھی آٹھ طالبان رہنما پاکستان آچکے تھے لیکن کچھ وجوہات کی بناء پر مذاکرات منسوخ ہوگئے ۔ ذرائع نے بتایا کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی حاد اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے آپس میں قریبی تعلقات ہیں جو سابق افغان صدر حامد کرزئی کے دور حکومت میں شروع ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ پاکستان ،افغانستان میں بدامنی کا خواہاں نہیں ہے ،کیونکہ اس سے پاکستان پر بھی اثر پڑے گا جبکہ حالات خراب ہو نگے تو داعش کو بھی کارروائیوں کا موقع ملے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان امریکہ اور بھارت سمیت تمام ممالک کے ساتھ برابری کے تعلقات چاہتا ہے ،کسی بھی قسم کی شرائط یا ڈکٹیشن قبول نہیں کرینگے۔ وزیراعظم کا دورہ امریکہ میں وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی ڈومور کا مطالبہ سامنے نہیں آنے والا کیونکہ پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کیخلاف ہزاروں جانیں دے چکا ہے ۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے اندر 80فیصد بدامنی کے واقعات کا تعلق افغانستان سے ہے، روزانہ تین سے چار ہزار افغانی پاکستان میں بغیر ویزہ کے داخل ہوتے ہیں پاکستان ہمیشہ افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا خواہاں رہا ہے لیکن افغانستان اس کا غلط فائدہ اٹھا رہا ہے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبر سے پاکستان کے اعلیٰ حکام لاعلم تھے ،تاہم افغان حکومت ملا عمر کے مرنے کے بعد یہ سمجھ رہی تھی کہ طالبان آپس میں لڑ کر ختم ہوجائینگے لیکن افغان طالبان ملا منصور کی سربراہی میں مزید منظم ہوئے ہیں پاکستان چاہتا ہے کہ افغان طالبان کو افغانستان کے اندر حکومت میں نمائندگی ملے ۔