چین ،پاکستان کے ذریعے ایشیاء میں اثر و رسوخ چاہتا ہے، امریکی جریدہ،پاک چین اکنامک کوریڈور ممکنہ طور پر چین کے جغرافیائی و سیاسی اثر و رسوخ اور فوجی موجودگی کو وسیع کرنے میں معاون ہوگا، پاک چین راہداری بلوچستان میں استحکام لائے گی۔مقامی افراد کو روزگار میسر آنے سے کشیدگی میں کمی جبکہ پاکستان خلیج سے بجلی کی ترسیل کے لئے ایک مرکز بن سکتا ہے،’فوربز

جمعرات 27 اگست 2015 09:27

نیو یا رک( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔27اگست۔2015ء )چین ،پاکستان کے ذریعے ایشیاء میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے،اسی لئے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کی جارہی ہے یہاں تک کہ پاکستان کے آئندہ کے منصوبوں میں بینک آف چائنہ،ایکسپورٹ امپورٹ بینک آف چائنہ اور مجوزہ ایشیائی انفراسٹرکچربینک سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ پاک چین اکنامک کوریڈور ممکنہ طور پر چین کے جغرافیائی و سیاسی اثر و رسوخ اور فوجی موجودگی کو وسیع کرنے میں معاون ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار ایک امریکی جریدے ”فوربز“ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین ایشیا میں پاکستان کے ذریعے اپنا اثر رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے،چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تجویز سب سے پہلے 2013 ء میں پیش کی گئی جس کا مقصد پاکستان میں ریل رابطوں، خصوصی اقتصادی زون، ڈرائی پورٹس اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے ذریعے چین کو براہ راست بحر ہند تک آسان رسائی دینا ہے۔

(جاری ہے)

یہ منصوبہ گوادر کو چین کے اہم تجارتی مرکز کاشغر سے جوڑتا ہے۔ اس سے 45دنوں کا سفر صرف دس دن تک سمٹ جاتا ہے۔ اس طرح چین ممکنہ چینلز تائیوان، ویتنام، فلپائن، انڈونیشیا اور بھارت سے گریز کرسکے گا۔اس سے شپنگ کے اخراجات بھی کم ہوں گے۔پاک چین اکنامک کوریڈور چین کو خلیج عرب میں داخلے کا ابتدائی پوائنٹ ہوگا۔اس طرح خطے میں ممکنہ طور پر چین کا جغرافیائی و سیاسی اثر و رسوخ اور فوجی موجودگی کو وسیع کرنے میں معاون ہوگا۔

کچھ بھارتی دانشوروں کو شبہ ہے کہ گوادر پورٹ چینی بحری سہولت کے طور پر کام کرے گی۔اس منصوبے کی لاگت صرف 40ارب ڈالر ہے تاہم چین کی جانب سے پاکستان میں ہونے والی یہ واحد سرمایہ کاری نہیں ہے۔ پاکستان میں 2008 کے بعد براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری دگنی ہوئی جو یہ امریکی امداد سے زیادہ ہے۔پاکستان کے آئندہ کے منصوبوں میں بینک آف چائنہ،ایکسپورٹ امپورٹ بینک آف چائنہ اور مجوزہ ایشیائی انفراسٹرکچرترقیاتی بینک سرمایہ کاری کریں گے۔

ان منصوبوں میں کراچی سے لاہور اور پشاور تک تین ارب ستر کروڑ ڈالر کی ریلوے لائن، دو ارب 80کروڑ کے تھر میں چار کوئلے سے چلنے والے اسٹیشنز، دو ارب بیس کروڑ ڈالر کے تھر میں دو کوئلے کے کان کنی کے بلاکس ، نواب شاہ سے گوادر تک اور پھر ایران تک دو ارب ڈالر کی قدرتی گیس پائپ لائن کی تعمیر ، کراچی میں پورٹ قاسم پر دو ارب ڈالر کے کوئلے سے چلنے والے پلانٹس، کیرٹ میں ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، بہاولپور میں ایک ارب بیس کروڑ ڈالرکا سولر پاور پارک، 93کروڑ ڈالر کی قراقرم ہائی وے، جھمپیر میں26کروڑ ڈالر کا 100 میگاواٹ ونڈ فارم اورگوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی23کروڑ ڈالر میں تعمیر شامل ہے۔

امداد اور سرمایہ کاری کے ذریعے چین پورے خطے میں اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔چین اب علاقائی کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور ایشیا، مشرق وسطی، افریقہ اور یورپ کے دیگر حصوں کے ساتھ بہتر تعلق قائم کرکے اپنی معیشت کے نیٹ ورک کو ان سے جوڑنا چاہتاہے۔ یہ نئی شاہراہ ریشم ہے۔ پاک چین راہداری بلوچستان میں استحکام لائے گی۔مقامی افراد کو روزگار میسر آنے سے کشیدگی میں کمی آجائے گی جبکہ پاکستان خلیج سے بجلی کی ترسیل کے لئے ایک مرکز بن سکتا ہے۔

پاکستان ان منصوبوں کو کامیاب ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔توانائی کے بحران سے پاکستان کی معیشت کو دھچکا لگا ہے،چینی سرمایہ کاروں نے اس بحران پر قابو پانے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ کئی دہائیوں کی بدانتظامی اور کمزور سماجی و اقتصادی بنیادی ڈھانچے کے باوجود پاکستان کو سب سے زیادہ فائدہ اس کا اسٹرٹیجک محل وقوع دیتا ہے۔

پاکستان کی اس اہمیت سے چین آگاہ ہے۔چین کی تجارت اور توانائی درآمدات کا 70 فیصد بحر ہند اور آبنائے مالیکاسے گزرتا ہے جہاں امریکی اور بھارتی دونوں ممالک کی بحری فوجیں گشت کرتی ہیں تاہم یہ ممکنہ رکاوٹ چین کے لئے ایک سیکورٹی مسئلہ بھی ہے۔ چین کی کھپت کاچالیس فی صد تیل اسی آبنائے سے گزرتا ہے۔ معمولی تنازع بھی چین کو تیل کی فراہمی منقطع کرسکتا ہے اورایسی صورت میں چینی بحری جہازوں کو پانچ سو سے زائد میل کاسفر کرنا پڑے گا۔ فی ا لحال بحر ہند سے بحرالکاہل سب سے تیز رفتار روٹ ہے لیکن چین اس خطرے کا سامنا کرنے سے آگاہ ہے اور وہ پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے جو اس کیلئے ایک چھوٹا اور محفوظ متبادل راستہ فراہم کر سکتا ہے۔