این اے 122 اور پی پی 147 کاانتخاب کالعدم، الیکشن ٹریبونل کا دوبارہ انتخابات کا حکم،دونوں حلقوں میں انتخابی بے ضابطگیاں اور بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں جس سے انتخابی عمل متاثر اور مشکوک ہوا ، الیکشن رولز 68 کی رو سے کسی فرد کی طرف سے دھاندلی ثابت نہیں ہوئی تاہم رولز 70 کی رو سے انتخابی عمل کے دوران جو الیکشن مشینری استعمال کی گئی ہے اس کی وجہ سے انتخابی عمل میں بے قاعدگیا ں و بے ضا بطگیاں پائی گئی ہیں، ووٹوں کی تصدیق وتحقیق کے دوران بعض پولنگ اسٹیشنز پر ڈالے گئے ووٹوں کے شناختی کارڈز کے نمبرز کی تصدیق نہیں ہو سکی ، بعض جگہوں پر ڈالے گئے ووٹوں کے انگوٹھوں کے نشانات واضح نہیں تھے‘ فیصلے کا متن

اتوار 23 اگست 2015 09:11

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23اگست۔2015ء) الیکشن ٹربیونل کے جج کاظم علی ملک نے لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 اور پی پی 147 میں مبینہ دھاندلی کیس میں دائر درخواستوں پر کارروائی کرتے دونوں حلقوں کے انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا ہے ۔الیکشن ٹربیونل کے جج نے اسی صفحات پر مشتمل فیصلہ میں کہا ہے کہ دونوں حلقوں میں انتخابی بے ضابطگیاں اور بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں جس سے انتخابی عمل متاثر اور مشکوک ہوا ہے۔

الیکشن رولز 68 کی رو سے کسی فرد کی طرف سے دھاندلی ثابت نہیں ہوئی، تاہم الیکشن رولز 70 کی رو سے انتخابی عمل کے دوران جو الیکشن مشینری استعمال کی گئی ہے اس کی وجہ سے انتخابی عمل میں بے قاعدگیا ں و بے ضا بطگیاں پائی گئی ہیں جسکی وجہ سے الیکشن عمل متاثر ہوا ہے۔

(جاری ہے)

الیکشن ٹربیونل نے کہا ہے کہ ان حلقوں میں کاسٹ کئے گئے ووٹوں کی تصدیق وتحقیق کے دوران بعض پولنگ اسٹیشنز پر ڈالے گئے ووٹوں کے شناختی کارڈز کے نمبرز کی تصدیق نہیں ہو سکی جبکہ بعض جگہوں پر ڈالے گئے ووٹوں کے انگوٹھوں کے نشانات واضح نہیں تھے۔

الیکشن ٹر بیونل نے کہا کہایک جگہ پر نادرا کی طرف سے161 ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ اس صورت حال میں دونوں حلقوں کے نتائج مشکوک ہوئے ہیں اور الیکشن عمل متاثر ہوا ہے لہذا ان دونوں حلقوں میں دوبارہ پولنگ کا حکمدیا جاتا ہے عدالت نے سترہ اگست کو دونوں حلقوں کے کیس کا فیصلہ محفوذظ کیا تھا ۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 سے ناکام اُمیدواردرخواست گذار تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سردار ایاز صادق کی کامیابی کو الیکشن ٹربیونل میں چیلنج کیا تھا۔

لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 سے سردار ایاز صادق نے الیکشن 2013 ء میں 96 ہزار 389ووٹوں سے کامیابی حاصل کی جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 84 ہزار 517 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر آئے ۔ اس حلقے میں انتخابی عمل کے دوران کل بیس اُمیدوار وں نے حصہ لیا تھا تاہم اصل مقابلہ سردار ایاز صادق اور عمران خان کے درمیان تھا ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جو لائی 2013 ء میں لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 سے کامیاب رکن قومی اسمبلی سردار ایاز صادق پر دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے انکی اہلیت کو چیلنج کیا۔

جس پر سردار ایاز صادق نے جو لائی 2013 ء میں ہی حکم امتناعی حاصل کر لیا تھا ۔ عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر سترہ اگست کو کیس پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ دوران سماعت عمران خان کے وکیل انیس ہاشمی نے عدالت کو بتایا کہ سردار ایاز صادق دھاندلی سے این اے 122 سے کامیاب ہوئے۔ پولنگ اسٹیشنز کے نتائج تبدیل کیے گئے اور جعلی ووٹ کاسٹ ہوئے۔

ٹربیونل نے عمران خان کی درخواست پر پہلے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرائی۔ دوبارہ پھر عمران خان کی ہی درخواست پر این اے 122 کا تمام ریکارڈ نادرا کو بھجوا دیا گیا۔ نادرا نے این اے 122 کی فرانزک رپورٹ تیار کر کے ٹربیونل میں جمع کروا دی۔ نادرا کی فرانزک رپورٹ میں این اے 122 میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ عمران خان کے وکیل انیس ہاشمی نے بتایا کہ دھاندلی ثابت ہو چکی ہے۔

این اے 122 کے نتائج کالعدم قرار دیے جائیں۔ سردار یاز صادق کے وکیل بیرسٹر اسجد سعیدنے عمران خان کے وکیل کے تمام دلائل محض الزامات قرار دیا اور کہا کہ فرانزک رپورٹ میں دھاندلی ثابت نہیں ہو سکی۔ عمران خان نے این اے 122میں دھاندلی ثابت نہیں کر سکے لہذا عمران خان کی پٹیشن خارج کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ طویل عرصہ گزرنے کی وجہ سے کاونٹر فائلز پر موجود دستخطوں کی نشاندہی نہیں ہو سکی اور نہ ہی یہ تعین کیا جا سکا ہے کہ غیر مصدقہ ووٹ کس امیدوار کو ڈالے گئے انہوں نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہاتھا کہ عمران خان نے بغیر ثبوت کے دھاندلی کے الزامات عائد کئے اور انکی جانب سے دھاندلی کا ایک بھی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا .لوکل کمیشن اور نادرا کی رپورٹس میں انتخابی دھاندلی ثابت نہیں ہوئی.انتخابی بے ضابطگیوں کو انتخابی دھاندلی قرار نہیں دیا جا سکتا.انہوں نے کہا کہ کاونٹر فائلز پر دستخط کرنااور مہر ثبت کرنا انتخابی عملے کی ذمہ داری تھی۔

طویل عرصہ گزرنے کی وجہ سے کاونٹر فائلز پر موجود دستخطوں کی نشاندہی نہیں ہو سکی اور نہ ہی یہ تعین کیا جا سکا ہے کہ غیر مصدقہ ووٹ کس امیدوار کو ڈالے گئے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے دھاندلی کے الزامات لگا کر سردار ایاز صادق کا میڈیا ٹرائل کرنے کی کوشش کی لہذا انکی انتخابی عذرداری کو مسترد کیا جائے۔عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر سترہ اگست کو کیس پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

الیکشن ٹربیونل نے مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی محسن لطیف کی نااہلی کے لیے انتخابی عذرداری کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے اس حلقہ میں دوبارہ پولنگ کا حکم دیا ہے ۔ الیکشن ٹربیونل کے روبرو تحریک انصاف کے رہنما شعیب صدیقی نے لاہور سے پی پی147 سے منتخب ایم پی اے محسن لطیف کی رکنیت کو چینلج کیا تھاہے۔ محسن لطیف کے وکیل نے الیکشن ٹربیونل کے روبرو حتمی دلائل دیئے اور انتخابی عذرداری میں لگائے گئے دھاندلی کے الزامات کو مسترد کردیا۔

الیکشن ٹربیونل نے محسن لطیف کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیاتھا۔ شعیب صدیقی نے انیس ہاشمی ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر عذرداری میں یہ الزام لگایا کہ پی پی 147 میں دھاندلی ہوئی اس لیے محسن لطیف کو نااہل قرار دیا جائے۔ ٹربیونل کے جج کاظم ملک نے حلقہ پی پی 147 میں بھی دوبارہ پولنگ کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے 148 کے انتخابات کو بھی کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ الیکشن کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ سولہ جون کو ٹربیونل کے جج کے حکم پر عمران خان اور سردار ایاز صادق کے وکلا نے حتمی دلائل کا آغاز کیا۔ 17 اگست کو عمران خان اور سردار ایاز صادق کے وکل نے حتمی دلائل مکمل کیے جس کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔ این اے 122میں مبینہ دھاندلی کیس کی مکمل کاروائی دو سال ایک ماہ 17 دن کے بعد مکمل ہوئی۔ این اے 122 میں دھاندلی کیخلاف کیس کی کل 58 مرتبہ سماعت کی گئی۔

۔عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سردار ایا ز صادق کے وکیل بیرسٹر اسجد سعید ایڈووکیٹ اور سردار ایا ز صادق کے بیٹے علی ایاز نے کہا کہ الیکشن ٹر بیونل نے اپنے فیصلے میں کہیں بھی دھاندلی کا ذکر نہیں کیا ۔ بلکہ الیکشن عمل میں رولز 68 میں کامیاب اُمیدوار کی دھاندلی کو ثابت کرنا ضروری ہوتا ہے ۔جبکہ الیکشن ٹر بیونل نے سردار ایاز صادق یا انکے کسی حامی کو دھاندلی کا ذمہ دار نہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ لوکل کمیشن اور نادرا کی رپورٹس میں انتخابی دھاندلی ثابت نہیں ہوئی.انتخابی بے ضابطگیوں کو انتخابی دھاندلی قرار نہیں دیا جا سکتا.انہوں نے کہا کہ کاونٹر فائلز پر دستخط کرنااور مہر ثبت کرنا انتخابی عملے کی ذمہ داری تھی۔ایک سوال پر بیرسٹر اسجد سعید اور علی ایاز نے کہا کہ قانون میں اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق موجود ہے۔ تاہم اسکا فیصلہ مسلم لیگ ن کی پارٹی قیادت کرے گی

متعلقہ عنوان :