سپریم کورٹ، ایف آئی اے بجٹ کیس میں سیکرٹری داخلہ کی رپورٹ مسترد ،چوبیس گھنٹوں میں جواب طلب ، حکومت ایف آئی اے کو کافی بجٹ نہیں دے سکتی تو کم از کم ان تارکین وطن اور شہریوں کو تو بتادے کہ اب ان کے بیٹوں کے قتل یا کسی دوسرے معاملے میں ملوث ملزمان کو ایف آئی اے گرفتار کرکے نہیں لا سکتی ، چیف جسٹس کے ریمارکس،دہشتگردی کیخلاف جنگ جیتنے کے لئے ایف آئی اے کے بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، مقدمہ کی مزید سماعت آج تک کے لئے ملتوی

جمعہ 21 اگست 2015 08:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔21اگست۔2015ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایف آئی اے بجٹ کے حوالے سے سیکرٹری داخلہ کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ان کو ہدایت کی ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں جواب دیا جائے کہ وفاقی حکومت نے ایف آئی اے کا جو بجٹ مقرر کیا ہے وہ کافی ہے ، دہشتگردوں کی گرفتاری ، ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالر بھجوانے والے تارکین وطن کو سہولیات دینے بیرون ملک مفرور ملزمان کی گرفتاری ، منی لانڈرنگ ، انسانی سمگلنگ سمیت سب جرائم کے خاتمے کیلئے مزید بجٹ کی ضرورت نہیں ہے ۔

چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے یہ جواب جمعرات کے روز اٹارنی جنرل پاکستان کی وساطت سے طلب کیا ہے ۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت ایف آئی اے کو کافی بجٹ نہیں دے سکتی تو کم از کم ان تارکین وطن اور شہریوں کو تو بتادے کہ اب ان کے بیٹوں کے قتل یا کسی دوسرے معاملے میں ملوث ملزمان کو ایف آئی اے گرفتار کرکے نہیں لا سکتی ۔

(جاری ہے)

ایف آئی اے کو دیا گیا بجٹ ناکافی ہے اٹھارہ ہزار ہائی پروفائل مقدمات بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے بند کردیئے گئے ہیں نیکٹا بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال ہے اور پانچ سو لوگ نہیں رکھ سکتا جسٹس دوست محمد نے کہا کہ غیر ملکی جیلوں میں سالوں سے قید ہزاروں پاکستانیوں کو واپس لانے کے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ جیتنے کے لئے ایف آئی اے کے بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔

سپریم کورٹ میں ایف آئی اے کے بجٹ کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ایف آئی اے کے تفتیشی افسران کے پاس قلم اور کاغذ کے پیسے نہیں ہوں گے تو و تفتیش کیسے کرینگے اگر ایف آئی اے کو بجٹ نہیں دینا تو پھر ایف آئی اے کا ادارہ بند کردینا چاہیے سال بھر کیلئے دس لاکھ روپے سے آتا ہی کیا ہے ۔ اٹارنی جنرل کو طلب کیا گیا وہ پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ تنخواہیں نکال کر یہ بجٹ رکھا جاتا ہے جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اگر دس لاکھ روپے فی کیس دیا جاتا ہے تو بتادیں سیکرٹری داخلہ پیش ہوئے ایف آئی اے کا کل بجٹ 116 ملین روپے ہے جسٹس جواد نے کہا کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے ایک مناسب آدمی ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے پلے سے پیسے دیتے ہیں سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ 1.6 کا 80قید ٹرانسپورٹیشن کے لیے دیا جاتا ہے دو سو ملین روپے آپریٹنگ نظام کے لیے ہے باقی تنخواہیں الگ ہیں عدالت نے کہا کہ بیس کروڑ میں کہاں کہاں خرچ ہوتا ہے اس پر سیکرٹری داخلہ نے اخراجات کی تفصیل عدالت میں پیش کیں جو 2015-16ء کے حوالے سے تھی تفتیش کے لیے 1.596 ملین روپے ہے عدالت نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ صرف سولہ لاکھ روپے رکھے گئے ہیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ صفحہ نمبر دو دیکھیں ساری کاسٹ دی گئی ہے ۔

ساری چیزیں تفتیش میں آتی ہیں عدالت نے کہا کہ ٹائپنگ اور سٹیشنری اور تنخواہ چھوڑ دیں آپ جو بتلا رہے ہیں یونٹ کاسٹ ہے 15لاکھ مقدمات کی یونٹ کا سٹ لگائیں گے تو وہ لاکھوں میں چلی جائے گی سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ 20 ہیڈز پررقم کو تقسیم کیا جاتا ہے ٹرانسپورٹ سمیت دیگر چھوٹے چھوٹے معاملات پہلے ہی تنخواہوں اور دیگر بجٹ میں شامل ہیں جب رقم کم پڑ جاتی ہے تو ہم سپلمنٹری گرانٹس تک دیتے ہیں ۔

عدالت نے کہا کہ یونٹ کاسٹ سے ہمیں مدد نہیں مل سکتی ایک مقدمے میں اگر ملزم باہر تھا اس کو لانے پر سارے بجٹ کی رقم خرچ ہوگی اب باقی مقدمات پر کیا ہوگا سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ اس حوالے سے ہم اضافی بجٹ دینگے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تحقیقاتی اداروں کی لیبارٹریز ہوتی ہیں ٹائپنگ کے معاملات کو چھوڑ دیں اگر سولہ لاکھ روپے فی مہینہ پورے ملک کے لئے بھی دیئے جائیں تب بھی ناکافی ہیں ۔

ملک میں دہشتگردی کیخلاف کاوشیں کی جاتی ہیں یہ رقم کہاں سے کافی ہوتی ہے آپ کتنی بار اضافی گرانٹ دینگے ایک ساتھ رقم کیوں نہیں رکھتے جسٹس جواد نے کہا کہ 2014-15ء میں آپ نے کتنے مقدمات میں کتنی رقم جاری کی اٹھارہ ہزار ہائی پروفائل مقدمات پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹھپ کردیئے گئے پچھلے سال بھی کافی شکایات آئی تھیں اور ان کے معاملات تاحال پنڈنگ ہیں ۔

جسٹس دوست نے کہا کہ مجھے بتایا جائے کہ ایف آئی اے نے دہشتگردوں کے اکاؤنٹس ، منی لانڈرنگ کے مقدمات کی تحقیقات کرنی ہیں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایف آئی اے کے لئے یہ تمام تر سہولیات کافی ہیں ۔ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ایف آئی اے نے ایک سو دس ملین مانگے تھے وزارت خزانہ کے ساتھ بات جاری ہے 2.4 ملین اسلام آباد پولیس کو دیئے گئے ہیں ۔ جسٹس دوست نے کہا کہ یہ تو صرف ایک شہر کی گرانٹ ہے پورے ملک کی کیا گرانٹ ہوسکتی ہے سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ 6492 مقدمات میں شکایات پر انکوائری کی جاتی ہے ازخود نوٹس بھی لیا جاتا اہے 11384 انکوائریاں کی گئی ہیں 7003 بند کردی گئی ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے ایچ آر سیل میں شکایات آتی رہتی ہیں ایف آئی اے تارکین وطن کے مقدمات بھی ڈیل کرتا ہے اس کے علاوہ بہت سے مقدمات ہیں ہم کچھ اعدادوشمار چاہتے ہیں اگر ہمیں اعدادوشمار دے دیں تو زیادہ بہتر ہوگا یونٹ کاسٹ کی ضرورت نہیں ہے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ نے اخبارات میں چھپی خبر اور تصویر دیکھی ہے آپ دیکھ کر حیرات زدہ ہوں گے کہ یہ کیسے گئے آپ اگر ڈائریکٹر جنرل ہوں اور صرف ایک لاکھ روپے آپ کومل رہے ہوں آپ تو کہیں گے کہ چائے پیو اور سکون کرو آپ کا اس سے کیا تعلق ہے کون ایجنٹ تھے کس نے پیسے لئے کون ان کو لے گیا ۔

عدالت نے ایف آئی اے سے پوچھا کہ اگر کوئی غیر ملکی خبررساں ادارے سے پاکستانیوں بارے کوئی ختم چھپتی ہے تو آپ اس کی تحقیقات کیسے کرتے ہیں آپ کو یہاں پاکستان میں غیر ملکی نیوز ایجنسی کا دفتر تلاش کرنا پڑے گا اور ان سے بات کرکے آپ واقع کو مزید تہہ تک پہنچیں گے ہم رائٹر بارے پوچھ لیتے ہیں اس دوران چیف جسٹس نے خبر رساں ادارے کے رپورٹر اختر صدیقی کو روسٹرم پر بلایا اور پوچھا کہ یہ غیر ملکی نیوز ایجنسی رائٹر کا یہاں کوئی دفتر ہے تو اس پر رپورٹر نے بتایا کہ جی ہاں مرکزی دفتر یہاں موجود ہے جس کی تائید نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر قیوم صدیقی نے بھی کی اس پر عدالت نے کہاکہ ایف آئی اے چاہے تو ان کے دفتر سے رابطہ کرکے تحقیقات کو مزید آگے بڑھا سکتی ہے مگر وہ کام کیسے کرے گی جب بجٹ میں کچھ نہ ہوگا جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آئے روز ہزاروں پاکستانیوں کو بارڈر کراس کرکے آتے جاتے ہیں ان کے بارے میں کوئی ریکارڈ تک موجود نہیں ہوگا جسٹس دوست نے کہا کہ دنیا کے بہت سے ممالک کے پاس کالوں کو چیک کرنے کا نظام ہے کیا آپ کے پاس ہے تو اس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ پی ٹی اے کے پاس ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیکٹا کے لئے پانچ سو لوگوں کی ضرورت ہے اور حکومت کہتی ہے کہ ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے جسٹس دوست نے کہا کہ نیکٹا ابھی فعال نہیں ہے آپ نے مختلف معاملات میں کام کرنا ہوتا ہے ۔ ہائی پروفائل مقدمات بھی دیکھنا ہوتے ہیں اور پھر دہشتگردی کیخلاف اقدامات بھی ہیں یہ سب کیسے ہوگا جب بجٹ میں ہی کچھ نہ ہوگا آپ اس بات کی بھی منظوری دے دیں کہ اصل بجٹ سے اگر تفتیش کے لیے مزید رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ لی جاسکتی ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ آپ نے بیس کروڑ روپے کی رقم گیارہ جگہوں پر استعمال ہوئی ہے آپ کہتے ہیں کہ یہ رقم کافی ہے تارکین وطن نے اس سال ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالر بھجوائے ہزاروں تارکین وطن میں سے دس ہزار تارکین وطن تو غیر قانونی گئے ہوں گے جو پیسہ ہم قرضے کی صورت میں لے رہے ہیں ان کے لیے تو رقم خرچ کرنے کو تیار ہیں جو ہم نے سود کے ساتھ واپس کرنے ہیں مگر جو ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالر بھجوا رہے ہیں ان کے لیے کچھ نہیں کرتا ۔

اس کا کوئی احساس تک نہیں چاہیے پاکستانی مر جائیں کسی نے کچھ نہیں کرنا اگر آپ اس رقم کو کافی سمجھتے ہیں تو ہم بیان ریکارڈ کرلیتے ہیں درخواست گزار سے کہا کہ اگر پاکستان کا پاکستانی بیٹا مر گیا تو ہم کیا کریں ایف آئی اے کو بجٹ میں دینے کو تیار نہیں ہے ملزم کو یونان سے کیسے لانا یہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرینگے کہ وہ ہماری مدد کردے اور ملزم کوواپس کرادے ۔

جس کا بیٹا مر گیا ہے اس سے کسی نے کوئی بات نہیں کی ہے آپ نے آگے کیا کہا ہے بیان دے دیں جسٹس دوست نے کہا کہ کتنے تارکین وطن غیر ملکی جیلوں میں بند ہیں جو غیر قانونی طور پر گئے تھے کوئی دس سال سے قید ہے ان کے حوالے سے کچھ پتہ ہے ۔ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ان کی تعداد تو وہ نہیں بتا سکتے مگر ان کی واپسی کے لئے اقدامات کررہے ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ابھی تک ملزم کی گرفتاری کیلئے کچھ نہیں کہا گیا کوئی پڑھ کر بتادے کہ یہ بجٹ کافی ہے عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ حکومت کی طرف سے بیان داخل کرائیں کہ پندرہ لاکھ روپے کی رقم کافی ہے اور مزید بجٹ کی ضرورت نہیں ہے یہ سب تحریری طور پر جمعہ کورپورٹ دیں تمام تر تفصیلات دیں ریڈ وارنٹ جاری ہوا ہے یا نہیں انٹر پول سے رابطہ ہوا ہے یا نہیں جس کا بیٹا مر گیا ہے اس کے بھائی بہن اور ماں باپ کو تو بتادیں کہ آپ نے کیا کیا ہے گھر والوں کو بتائیں کہ آپ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا دینگے جسٹس دوست نے کہا کہ اگر آپ ماہی گیروں کو تو رہا کردیتے ہیں اور رہا کرالیتے ہیں باقی قیدیوں کا کیا کررہے ہیں ؟ عدالت نے مقدمہ کی مزید سماعت آج جمعہ تک کے لئے ملتوی کردی ۔