ادارے کی ساکھ کیلئے عہدہ، منصب جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں،چیف جسٹس،وکلاء کیخلاف 7500 شکایات ہیں،انضباطی کارروائی کے ٹربیونلز غیرفعال ہیں،بینچ اور بار کے احترام پر آنچ آئے گی تو معاملہ نہیں چلے گا،توھین عدالت کیس میں ریمارکس،سرکاری ادارے اسی طرح بدعنوانی میں ملوث رہے،عوام کی خون پسینے کی کمائی لٹتی رہی تو پھر اس ملک کو انقلاب فرانس دیکھنا پڑے گا،جسٹس دوست محمد خان،میڈیا کو آزادی اظہار رائے حاصل ہے،میڈیا کو ایسی کوئی درخواست شائع نہیں کرنی چاہیے جس سے عدلیہ کے احترام پر کوئی حرف آئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ،پچھلے آرڈرز پڑھ کر بتادیں کون صحیح اور کون غلط ہے، جمعہ تک کا وقت دے دیتے ہیں، چیف جسٹس،جمعہ کو نہیں ہوں گی، وکلاء کسی کے غلام نہیں،عاصمہ جہانگیر

بدھ 19 اگست 2015 09:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19 اگست۔2015ء) سپریم کورٹ نے علی ظفر ایڈووکیٹ توہین عدالت کیس میں بار کے سینئر قانون دان لطیف آفریدی سے کہا ہے کہ وہ تمام معاملات کا جائزہ لے کر جمعہ کو بتائیں کہ عدالت اور علی ظفر کیس کس حد تک صحیح اور غلط ہیں ۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ادارے کے احترام میں پہلے بھی جج کا عہدہ چھوڑا اب بھی ادارے کی ساکھ کے لئے ہم عہدے اور منصب کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ۔

وکلاء کیخلاف 7500 شکایات موجود ہیں اور انضباطی کارروائی کے ٹربیونلز تاحال غیر فعال ہیں ۔ بینچ اور بار کے احترام پر آنچ آئے گی تو معاملہ نہیں چلے گا ۔ کہا جاتا ہے کہ ججز اندر بیٹھ جائیں اور عوام کی لٹنے والی کمائی پر سمجھوتہ کرلیں کرپشن کو روکنا ہمارے فرائض میں شامل ہے جس کے لئے ہمیں اس قدر مراعات اور تنخواہیں دی جاتی ہیں ہم اپنے فرائض سے روگردانی نہیں کرسکتے جو اٹھتا ہے عوام کے اثاثوں کو مالی غنیمت سمجھ کر فیصلہ شروع کردیتا ہے جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ سرکاری ادارے اس طرح سے بدعنوانی میں ملوث رہے اور عوام کی خون پسینے کی کمائی اس طرح لٹتی رہی تو پھر اس ملک کو انقلاب فرانس دیکھنا پڑے گا ۔

(جاری ہے)

اس ملک کا ہر انچ عوام کی ملکیت ہے حکومت اور ادارے محض اس کے نگہبان اور رکھوالے ہیں وہ کسی طور پر بھی اس کے مالک نہیں حکمران جب گرانے پر آتے ہیں تو غریبوں کی کچی آبادیاں تک گرا دیتے ہیں اور سی ڈی اے کی مہربانی اور آشیرباد سے فٹ پاتھوں ، گرین بیلٹ تک ناجائز قبضے ہوچکے ہیں اور کسی کو کوئی روکنے والا نہیں ہے جنگلات کی کٹائی سے چترال ، گلگت اور ملک کے دیگر علاقوں میں سیلاب آتے ہیں اورسب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں پنجاب میں قبضہ مافیا ، کے پی کے میں جنگلات مافیا ہے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ میڈیا کو آزادی اظہار رائے حاصل ہے مگر کچھ پابندیاں بھی ہیں میڈیا کو ایسی کوئی التواء کی درخواست شائع نہیں کرنی چاہیے کہ جس میں عدلیہ کے احترام پر کوئی حرف آنے کا احتمال ہو جبکہ علی ظفر ایڈووکیٹ کے وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ بینچ اور بار دونوں کو ایک دوسرے کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا میڈیا میں خبروں کا سلسلہ ججز صاحبان کی اپنی مہربانی سے شروع ہوا ہے اب وقت آگیا ہے کہ بینچ اور بار کے درمیان پیدا شدہ یہ مسئلہ اب حل ہونا چاہیے ہم بطور وکلاء قوانین کے پابند ہیں اگر ہمارے پیشے کا احترام نہ رہا تو پھر کچھ بھی باقی نہ رہے گا انہوں نے منگل کے روز چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو مزید بتایا کہ مجھے بتایا جائے کہ وکلاء کے آزادی اظہار رائے کی حد کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوتی ہے علی ظفر التواء پر تھے علی ظفر کے ایسوسی ایٹ راجہ خالد ظفر نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ ڈالا جس کی علی ظفر نے قطعی طورپر ہدایت نہیں کی تھی یہ خود تسلیم بھی کرتے ہیں کہ غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں ان سے بھی ہوئی ہیں یہاں بھی معاملہ التواء کا تھا میرا بھی ایک مقدمہ التواء کے باوجود خارج کردیا گیا آپ جس طرح کہیں گے اس طرح سے دلائل دوں گی ۔

چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ لطیف آفریدی اور آپ پچھلے آرڈرز پڑھ لیں اور بتادیں کہ کون صحیح تھا اور کون غلط اس کے لئے ہم آپ کو جمعہ تک کا وقت دے دیتے ہیں اس پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ وہ جمعہ کو نہیں ہوں گی ہم وکلاء کسی کے غلام نہیں ہیں اس پر ججز نے کہا کہ وہ وکلاء کا احترام کرتے ہیں بار کونسلوں کو اپنے معاملات خود دیکھنے چاہیں بہت سی شکایات ان کیخلاف زیر التواء ہیں اس پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی بہت سی شکایات کا فیصلہ نہیں کیا گیا بار کونسلیں اپنا کام کرینگی اس حوالے سے وہ عدالت کو یقین دہانی کراتی ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ درجہ حرارت آپ اور ہم میں سے کوئی نہیں بڑھاتا بعض اوقات یہ خود سے اونچا ہوجاتا ہے بہرحال ہم وکلاء کی قدر کرتے ہیں معاملہ ادارے کی ساکھ اور عزت کا ہے میرے بارے کہا گیا کہ میرا سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے کوئی تعلق تھا یقین کریں میرا کوئی ان سے تعلق نہیں تھا اور نہ ہی ان سے کوئی ملاقات ہوئی تھی ان کو غیر قانونی طور پر منصب سے الگ کئے جانے کی خبر سنی تو ادارے کے احترام اور عزت کا پاس رکھنے کے لیے ہائی کورٹ جج کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا میرا تو سپریم کورٹ سے تعلق بھی نہیں تھا آج بھی یہ کہتا ہوں کہ ادارے کا احترام مقدم ہے اس کے مقابلے میں عہدے اور منصب جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں بعد ازاں عدالت نے لطیف آفریدی اور عاصمہ جہانگیر کو عدالتی حکم ناموں کا جائزہ لینے کی ہدایت کی ۔

متعلقہ عنوان :