سپریم کو رٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام کو آئینی قرار دے دیا،اٹھارہویں ، اکیسویں ترمیم کیخلاف تما م درخواستیں خارج ، درخواستیں اکثریت رائے سے مسترد کی گئیں، 17 میں سے 14 ججوں نے 18 ویں ترمیم کے حق میں جب کہ 11 ججوں نے 21 ویں ترمیم کو جائز قرار دیا، 3 ججز نے 18 ویں جب کہ 6 ججز نے 21 ترمیم کی مخالفت میں فیصلہ دیا،جسٹس جواد ایس خواجہ سمیت 7 ججز کا اختلافی نوٹ بھی تحریر ۔اٹھارہویں ترمیم کیخلاف، فیصلے کے بعد 6 سزایافتہ مجرمان کی پھانسی دینے کے فیصلے کے خلاف جاری کردہ حکم امتناعی ختم ۔ مجرمان کو آئندہ 24 گھنٹوں میں پھا نسی دیئے جا نے کا امکا ن، درخواستیں اپریل 2010 میں دائر ہوئیں ، 16 دسمبر 2014 کے بعد سانحہ پشاور کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا

جمعرات 6 اگست 2015 08:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6 اگست۔2015ء) سپریم کورٹ نے 18 ویں اور 21 ویں ترامیم کے خلاف درخواستیں مسترد کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کو آئینی قرار دے دیا۔ بدھ کے روز چیف جسٹس ناصر الملک نے 18 اور 21 ویں آنینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ سنایا۔ درخواستوں میں فوجی عدالتوں کے قیام کے علاوہ ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق درخواستیں اکثریت رائے سے مسترد کی گئیں، 17 میں سے 14 ججوں نے 18 ویں ترمیم کے حق میں جب کہ 11 ججوں نے 21 ویں ترمیم کو جائز قرار دیا، 3 ججز نے 18 ویں جب کہ 6 ججز نے 21 ترمیم کی مخالفت میں فیصلہ دیا۔۔ 13 ججز نے دونوں درخواستیں قابل سماعت قرار دیں مگر 4 ججز نے ان کو ناقابل سماعت قرار دیا ہے، عدا لتی فیصلے کے بعد اب 6 سزایافتہ مجرمان کی پھانسی دینے کے فیصلے کے خلاف جاری کردہ حکم امتناعی بھی ختم ہو گیا ہے ۔

(جاری ہے)

مجرمان کو آئندہ 24 گھنٹوں میں کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے ۔۔ فیصلہ چیف جسٹس پاکستان ناصر الملک نے تحریر کیا ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ سمیت 7 ججز نے اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے ۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 جسٹس فل کورٹ بنچ نے 18 ویں اور 21 میں ترمیم کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت کی تھی اور فیصلہ محفوظ کیا تھا جو بدھ کے روز جاری کیا گیا ہے ۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں فل کورٹ نے 18 ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم سے متعلق 39 متفرق درخواستوں پر دلائل مکمل ہونے کے بعد 27 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ 18ویں آئینی ترمیم صوبائی خودمختاری اور 21ویں ترمیم فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق تھی۔ 18 ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں اپریل 2010 میں دائرہوئیں جن پر عدالت عظمی نے اکتوبر 2010 میں حکم جاری کرکے معاملہ زیر التواء رکھا۔

16 دسمبر 2014 کو سانحہ پشاور کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے ناسور کے خاتمہ اور دہشت گردوں کے فوری سزائیں دلوانے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا۔ 7 جنوری کو آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل 2015 اور 21 ویں ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کرائی گئی۔ فوجی عدالتوں اور 21 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر پہلی سماعت 27 جنوری 2015 کو چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

سپریم کورٹ میں 18 ویں اور 21 ویں ترمیم کے خلاف کل 32 درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے 18 ویں اور 21 ترمیم کے خلاف تمام درخواستوں کو یکجا کرکے سننے کا حکم جاری کیا۔ 24 فروری کوجسٹس انور ظہیر جمالی کی سر براہی میں تین رکنی بینچ نے معاملہ پر فل کورٹ بینچ بنانے کی سفارش کردی۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے 3 اپریل کو معاملہ پر فل کورٹ تشکیل دے دیا۔

16 اپریل کو سپریم کورٹ نے حکم امتناعی جاری کرکے فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی جانے والی چھ دہشت گردوں کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا۔ آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں پر تیس سماعتوں کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ، پاکستان بار کونسل ، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کے وکلاء نے دلائل دیئے اورموقف اختیار کیا کہ جمہوریت ، مذہب ، بنیادی انسانی حقوق ، آزاد عدلیہ ، عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی اور فئیر ٹرائل آئین کے بنیادی جزو ہیں جن کے خلاف کوئی ترمیم نہیں کی جاسکتی۔

حکومتی وکلاء خالد انور اور اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے آئینی ترامیم کا بھرپور دفاع کیا اور کہا کہ آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں عدالت آئین میں ترامیم کا جائزہ نہیں لے سکتی۔

متعلقہ عنوان :