میری سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی آشیر بادد شامل نہیں ہوگی،افتخار محمد چوہدری، میں نے بطور چیف جسٹس ہمیشہ انصاف پر مبنی فیصلے دیئے۔ بلوچستان کے مسائل کو فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہاں لوگوں میں احساس محرومی کو ختم کرنا ہوگا۔، کراچی میں عطاء اللہ مینگل سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو

ہفتہ 1 اگست 2015 08:57

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔1 اگست۔2015ء) سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ میری سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرواد شامل نہیں ہوگی۔ میں نے بطور چیف جسٹس ہمیشہ انصاف پر مبنی فیصلے دیئے۔ بلوچستان کے مسائل کو فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہاں لوگوں میں احساس محرومی کو ختم کرنا ہوگا۔ وہ جمعہ کو کراچی میں بلوچستان کے بزرگ سیاسی رہنما سردار عطاء اللہ مینگل سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔

ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے سیاسی صورت حال اور بلوچستان کے معاملات پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ میں نے آئین کے مطابق مسائل کے حل کے لئے سوموٹو ایکشن لئے اور تمام فیصلے قانون اور انصاف کے مطابق کئے۔

(جاری ہے)

میرا ریکارڈ گواہ ہے کہ میرے تمام فیصلے آئینی تھے اور میں نے جو اختیارات استعمال کئے وہ بھی آئین کے مطابق تھے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کی احساس محرومی کو ختم کرنا ہوگا۔ بلوچستان کے مسئلے کو فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک سے کرپشن اور لوٹ مار کا خاتمہ ہونا چاہئے اور ملک میں ایماندار اور انصاف پر مبنی نظام قائم ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جو بھی پارٹی بناؤں گا اسے اسٹیبلشمنٹ کی آشیرواد حاصل نہیں ہوگی۔

میں عوام کی جماعت قائم کروں گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میری عمران خان سے ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ عمران خان نے مجھ پر جو الزامات عائد کئے وہ ثابت نہیں کرسکے۔ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آگیا ہے جس نے عمران خان کے الزامات کو رد کردیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے سردار عطاء اللہ مینگل سے ملاقات میں درخواست کی ہے کہ وہ ملک کی بھلائی کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور دوبارہ فعال ہوجائیں۔

اس موقع پر سردار عطاء اللہ مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں قتل عام بند ہونا چاہئے۔ وہاں کے لوگوں کا احساس محرومی ختم کرنا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جب قتل عام بند ہوجائے گا۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہوجائے گا اور بلوچستان کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق ملنا شروع ہوجائیں گے تو بلوچستان کا مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا۔ حکمران بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے ضروری ہے کہ وہاں کی عوام کو سنا جائے۔