ا سٹیٹ بینک کا شرح سود 6.5فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ، ملکی معاشی اشاریئے بہتر، درآمدی بل میں کمی سے تجارتی خسارہ کم ہوا ، مہنگائی کی شرح 8.6فیصد سے کم ہو کر 4.5فیصدپر آگئی ، ترقیاتی اخراجات میں اضافے سے شرح نمو اور ادائیگیوں کی توان میں بہتری آئی ہے، مالیاتی خسارہ بھی گذشتہ برس سے کم ہے ، معاشی چیلنجز اب بھی درپیش ہیں ، کمزور عالمی طلب اور اجناس کی کم قیمتوں کے باعث برآمدات مالی سال 15ء میں سکڑ کر 3.7 فیصد رہ گئی ہیں، آئندہ برسوں میں سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہو گی ،مالی سال 16ء میں توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ، جلد خراب ہونے والی غذائی اشیا پر سیلاب کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمودوتھرا کا زری پالیسی کے اجراء کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب

اتوار 26 جولائی 2015 08:54

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔26 جولائی۔2015ء) گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان اشرف محمودوتھرا نے کہا ہے کہ ملکی معاشی اشاریئے بہتر ہوئے ہیں درآمدی بل میں کمی سے تجارتی خسارہ کم ہوا ہے، مہنگائی کی شرح 8.6فیصد سے کم ہو کر 4.5فیصدپر آگئی ہے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں متوقع کمی کے باعث افراط زر بھی کم رہے گی ،ترقیاتی اخراجات میں اضافے سے شرح نمو بہتر ہوئی اور ادائیگیوں کی توان میں بہتری آئی ہے، مالیاتی خسارہ بھی گذشتہ برس سے کم ہے جس کی بنیادی وجہ ٹیکس محاصل میں بہتری ہے اس تمام صورتحا ل کے پیش نظر مرکزی بینک نے پالیسی ریٹ کو کسی تبدیلی کے بغیر6.5فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم معاشی چیلنجز اب بھی درپیش ہیں کیونکہ کمزور عالمی طلب اور اجناس کی کم قیمتوں کے باعث برآمدات مالی سال 15ء میں سکڑ کر 3.7 فیصد رہ گئی ہیں۔

(جاری ہے)

خالصبیرونی براہ راست سرمایہ کاری کم ہو کر مالی سال 15ء میں جی ڈی پی کے 0.3 فیصد تک رہ گئی ہے اس لئے آئندہ برسوں میں سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہو گی ۔انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ مالی سال 16ء میں توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے اور جلد خراب ہونے والی غذائی اشیا (perishable food items) پر سیلاب کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

وہ ہفتہ کو مرکزی بینک میں زری پالیسی کے اجراء کے موقع پر پریس کانفرنس کر رہے تھے ۔گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا نے کہا کہ اقتصادی اظہاریوں میں بہتری کے باعث اسٹیٹ بینک نے اپنی موافق زری پالیسی کا تسلسل جاری رکھا اور مالی سال 15ء کے دوران پالیسی ریٹ میں مجموعی طور پر 300 بی پی ایس کی کٹوتی کی گئی۔ زری پالیسی کے فیصلوں میں معاون ثابت ہونے والے اہم عوامل میں انفلیشن سی پی آئی ( صارف اشاریہ قیمت گرانی) میں تیزی سے کمی کے ساتھ اس کے خوش آئند امکانات اور بیرونی کھاتے میں بہتری شامل ہیں۔

اس کے علاوہ مالیاتی خسارے میں کمی اورExtended Fund Facility کے تسلسل کی وجہ سے بازار کے احساسات بہتر ہو گئے۔ اس پیش رفت کا نتیجہ حالیہ مہینوں میں بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان کی ریاستی درجہ بندی کے اپ گریڈ ہونے کی صورت میں برآمد ہوا۔اس طرح حاصل ہونے والے معاشی استحکام کے حقیقی معاشی سرگرمیوں پرمثبت اثرات کی عکاسی آئندہ مہینوں میں ظاہر ہونا شروع ہو جائے گی ۔

گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا نے مزید کہا کہ مالی سال 15ء کے تقریباً ہر مہینے میں کمی کے رجحان کو برقرار رکھتے ہوئے اوسط صارف اشاریہ قیمت گرانی جولائی مالی سال14ء کے 8.6 فیصد سے کم ہو کر جون مالی سال 15ء میں 4.5 فیصد پر آگئی تاہم مالی سال 15ء میں زری نرمی کے تاخیر سے مرتب ہونے والے اثرات، مالی سال 16ء میں زری توسیع کی متوقع بلند سطح، گرانی کی توقعات کے نیچے آنے اور مالی سال 15ء کی دوسری ششماہی کے دوران تاریخی لحاظ سے پست گرانی کے اساسی اثر جیسی حالیہ پیش رفت مالی سال 16ء میں داخل ہوتے ہوئے مالی سال 15ء کے ارزانی کے رجحان (disinflationary trend) سے کچھ انحراف کا باعث بنی ہے۔

تاہم اسٹیٹ بینک کی پیش گوئی کے مطابق مالی سال 16ء میں اوسط صارف اشاریہ قیمت گرانی کسی تبدیلی کے بغیر 4 سے 5فیصد کی حد میں رہنے کی توقع ہے جو مالی سال 16ء کے مقررہ ہدف 6.0 فیصد سے کم ہے۔انہوں نے کہا کہ اس پیش گوئی کو کچھ خطرات لاحق ہیں۔ مالی سال 16ء میں توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے اور جلد خراب ہونے والی غذائی اشیا (perishable food items) پر سیلاب کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

تیل کی بلند پیداوار کی پیش گوئیوں اور کمزور عالمی طلب سے پتہ چلتا ہے کہ تیل کی بین الاقوامی قیمتیں ابھی تک اپنی کم ترین سطح تک نہیں پہنچیں۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے تناظر میں پاکستان کی صارف اشاریہ قیمت گرانی (CPI Inflation) کے حالیہ رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تخمین شدہ (projected) گرانی ،پیش گوئی کی نچلی سطح کے قریب رہ سکتی ہے۔گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا نے کہا کہ اگرچہ مالی سال 15ء میں ہونے والی جی ڈی پی کی 4.2 فیصد نمو مالی سال 14ء کے مقابلے میں کچھ زیادہ تھی لیکن یہ ہدف سے کم رہی۔

خصوصاً، بڑے پیمانے کی اشیا سازی (Large Scale Manufacturing) اور بجلی کی پیداوار میں پست نمو کی وجہ سے صنعتی شعبہ اپنے ہدف کو حاصل نہ کر سکا تاہم تعمیرات ، کوہ کنی اور کان کنی کی سرگرمیوں میں تیزی دیکھی گئی۔ بے وقت اور شدید بارشوں کے سبباہم فصلوکو نقصانات کے باوجود زرعی شعبہ معمولی اضافہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔گذشتہ چند برسوں کی طرح قابل ذکر تبدیلی خدمات کے شعبے میں دیکھی گئی۔

گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا نے مزید کہا کہ پست شرح سود کے ماحول میں صرف کی متوقع بلند سطح، ترقیاتی اخراجات میں منصوبہ بندی کے مطابق اضافہ اور تعمیراتی شعبے کو میزانی ترغیبات سے نمو کو کچھ تقویت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ چین پاکستان اقتصادی کوریڈور کے تحت انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر عملدرآمد سے سرمایہ کاری بحال ہو سکتی ہے۔ ساختی مسائل خصوصاً، توانائی اور سیکورٹی کے متعلق ، کو حل کرنے سے سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو گا جو کہ وسط تا طویل مدت کے دوران پائیدار بنیادوں پر معاشی نمو کے لیے ضروری ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا نے کہا کہ مالی سال 15ء کی دوسری ششماہی کے دوران ادائیگیوں کے توازن میبہتری کا عمل جاری رہا۔ بیرونی پوزیشن کو بہتر بنانے والے عوامل میں درا?مدی بل میں کمی کے باعث بیرونی جاری کھاتے کے خسارے میں کمی اور کارکنوں کی ترسیلات زر میں مستحکم نمو شامل ہیں۔ ای ایف ایف پروگرام کے تحت جائزوں کی کامیاب تکمیل، بین الاقوامی اجارہ صکوک کے جاری ہونے اور پروگرام پر مبنی فنڈنگ سے ذخائر کو بڑھانے میمدد ملی ہے جس سے بازار مبادلہ میں استحکام پیدا ہو رہا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے خالصذخائر آخر دسمبر 2014ء کے 10.5 ارب ڈالر سے بڑھ کر 30 جون 2015ء تک 13.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا نے کہا کہ اس مثبت پیش رفت کے باوجود بعض ساختی مسائل ، کمزور عالمی طلب اور اجناس کی کم قیمتوں کے باعث برآمدات مالی سال 15ء میں سکڑ کر 3.7 فیصد رہ گئی ہیں۔ خالصبیرونی براہ راست سرمایہ کاری کم ہو کر مالی سال 15ء میں جی ڈی پی کے 0.3 فیصد تک رہ گئی ہے۔

آئندہ برسوں میں سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ قلیل مدت سے وسط مدت میں، پروگرام سے متعلق رقوم کی وصولی اور یورو بانڈز کے مجوزہ اجرا سے توقع ہے کہ زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کو مدد ملتی رہے گی۔ چنانچہ آخر جون 2016ء تک اسٹیٹ بینک کے خالص ذخائر 4 مہینوں سے کچھ زائد مدت کی درآمدات کے لیے کافی ہوں گے۔

تاہم زرِمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والے اضافے کو برقرار رکھنے اور جاری حسابات ( Current Account) کو مستحکم بنانے کے لیے نجی رقوم کی آمد اور برآمدات کی بحالی کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ مالی سال 15ء کے نظرثانی شدہ بجٹ تخمینے 5.0 فیصد مالیاتی خسارے کو ظاہر کرتے ہیں جو گذشتہ برس سے کم ہے۔ مالی سال 15ء میں مالیاتی خسارے کے تخمینے میں کمی کی بنیادی وجہ ٹیکس محاصل میں بہتری ہے۔

دوسری طرف زرِ اعانت میں کٹوتی اور کم سودی ادائیگیوں کے باوجود مجموعی اخراجات کے بجٹ تخمینوں سے زائد رہنے کا امکان ہے۔ م س 16ء میں مالیاتی خسارے کا 4.3 فیصد ہدف حاصل کرنے کا انحصار گیس انفرا سٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس سے 145 ارب روپے اور ایف بی آر کی جانب سے محاصل کے مقررہ ہدف 3104 ارب روپے کے حصول پر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ زرِ وسیع (M2) کی نمو میں کمی آئی جو مالی سال 13ء کے 15.9 فیصد سے گر کر مالی سال 14ء میں 12.5 فیصد تک آچکی تھی تاہم مالی سال 15ء میں یہ دوبارہ معمولی سی بڑھ کر 13.2 فیصد ہو گئی۔

اگرچہ خالص ملکی اثاثے زر 2 میں نمو کا سبب بنے تاہم م س 15ء میں خالص بیرونی اثاثے کم ہو گئے۔ جاری حسابات کے بہتر توازن کے باوجود بینکوں کے خالص بیرونی اثاثوں میں تخفیف سرمائے اور مالی رقوم کی کم آمد کا نتیجہ تھی۔ حکومت کے اپنی مالکاری کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بینکوں خصوصاً جدولی بینکوں پر انحصار سے بینکاری نظام کے خالص ملکی اثاثے بڑھ گئے۔

اجناس کی خریداریوں اور سرکاری شعبے کے اداروں، دونوں کے لیے جدولی بینکوں کی مالکاری بھی مالی سال 14ء کی نسبت مالی سال 15ء میں خاصی بڑھ گئی۔انہوں نے کہا کہ مالی سال 15ء کے دوران نجی شعبے کے قرضے میں 208.7 ارب روپے اضافہ ہوا جبکہ م س 14ء میں 371.4 ارب روپے اضافہ ہوا تھا۔ نجی شعبے کے قرضے میں اہم رکاوٹ ساختی دشواریاں اور اجناس کے کم نرخ ہیں۔

مالی سال 16ء میں تعمیرات اور ریئل اسٹیٹ کے شعبوں سے بہتری کی امید ہے جیسا کہ اس بات سے ظاہر ہے کہ ان شعبوں نے مسلسل قرضے استعمال کیے ہیں۔ م س 15ء کی نرم زری پالیسی کے تاخیر سے مرتب ہونے والے اثرات بھی، توقع ہے کہ مالی سال 16ء کی پہلی ششماہی میں قرضوں کی نمو پر مثبت اثر ڈالیں گے۔ رسدی پہلو سے، قرضوں پر بہ وزن اوسط شرح سود (WALR) اور سہ ماہی ٹی بل کی شرحوں میں پایا جانے والا تفاوت (Spread) قرض گاری (Lending) کو ممکنہ طور پر زیادہ پْرکشش بنائے گا، یہ مالی سال 14ء کے 113 بیسس پوائنٹس (اوسطاً) سے بڑھ کر مالی سال 15ء میں بڑھ کر (اوسطاً) 131 بیسس پوائنٹس ہو گیا۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 15ء کی تیسری سہ ماہی میں سیالیت کی صورتحال دباؤ میں رہی تاہم چوتھی سہ ماہی میں حکومت کی طرف سے بینکوں کو قرضوں کی خالص واپسی سے یہ کچھ بہتر ہو گئی۔ نرم زری پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مالی سال 15ء کی تقریباً پوری دوسری ششماہی کے دوران مارکیٹ کی دیگر شرح ہائے سود بھی کم ہوئیں۔ تاہم مئی 2015ء کے گرانی کے اعدادوشمار جاری ہونے کے بعد سے مارکیٹ کے احساسات میں تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔

گونر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ مئی 2015ء میں شرحِ سود کوریڈور (آئی آر سی) فریم ورک میں جدت لانے کے بعد اسٹیٹ بینک نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ بازارِ زر کی اوسط شبینہ شرح (Money Market Average Overnight Rate) نئی متعارف کرائی جانے والی ٹارگٹ (پالیسی)شرح 6.5 فیصد کے قریب رہے۔ اس کے نتیجے میں بازارِ زر کے سودوں (Money Market Operations)کے حجم اور تعداد دونوں میں اضافہ ہوا۔

چنانچہ مئی 2015ء کے زری پالیسی فیصلے کے بعد کی مدت میں شبینہ ریپو ریٹ، 6.5 فیصد پالیسی ریٹ سے اوسطاً 2 بی پی ایس کم رہا۔ جبکہ شبینہ شرح میں کم تغیر پذیری دیکھنے میں آئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ مذکورہ معاشی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پالیسی ریٹ کو کسی تبدیلی کے بغیر 6.5 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔