جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ہمارے موقف ہی کی نہیں بلکہ عوام کے مینڈیٹ کی بھی توثیق ہے، نوازشر یف ،پاکستان نئے دور میں داخل ہوگیا ، مسائل سڑکوں پر یا دھرنوں میں نہیں بلکہ دستوری ایوانوں میں حل ہونگے ، اب ہمیں راستے سے بھٹکا دینے والی آوازوں پر کان دھرنے کی بجائے ، اپنی نظریں مستقبل کی روشن منزلوں پر مرکوز رکھنا ہوں گی، ہم تیزی کے ساتھ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں، آپریشن ضربِ عضب کے نتائج پوری قوم کے سامنے ہیں، اپنے شہروں کو دہشت گردی اور لاقانونیت سے نجات دلانے کے لئے پُر عزم ہیں، کوئی سیاسی مصلحت ہمارے اس پختہ عزم کو کمزور نہیں کر سکتی،حکومت سیلاب متاثرین کے نقصانات کی تلافی اور اُن کی مکمل بحالی میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی ، میں خود متاثرہ علاقوں میں جا رہا ہوں اور سارے عمل کی نگرانی کر رہا ہوں،وزیر اعظم کا قوم سے خطاب

جمعہ 24 جولائی 2015 08:48

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔24 جولائی۔2015ء)وزیر اعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ انکوائری کمیشن نے 2013ء کے عام انتخابات کو مجموعی طور پر منصفانہ اور قانون کے مطابق قراردید یا ہے ،اللہ تعالیٰ نے ہمیں سرخرو کیا ، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ہمارے موقف ہی کی نہیں بلکہ عوام کے مینڈیٹ کی بھی توثیق ہے، پاکستان نئے دور میں داخل ہوگیا ، مسائل سڑکوں پر یا دھرنوں میں نہیں بلکہ دستوری ایوانوں میں حل ہونگے ، اب ہمیں راستے سے بھٹکا دینے والی آوازوں پر کان دھرنے کی بجائے ، اپنی نظریں مستقبل کی روشن منزلوں پر مرکوز رکھنا ہوں گی،وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم تیزی کے ساتھ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں، آپریشن ضربِ عضب کے نتائج پوری قوم کے سامنے ہیں، اپنے شہروں کو دہشت گردی اور لاقانونیت سے نجات دلانے کے لئے پُر عزم ہیں، کوئی سیاسی مصلحت ہمارے اس پختہ عزم کو کمزور نہیں کر سکتی،حکومت سیلاب متاثرین کے نقصانات کی تلافی اور اُن کی مکمل بحالی میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی ، میں خود متاثرہ علاقوں میں جا رہا ہوں اور سارے عمل کی نگرانی کر رہا ہوں۔

(جاری ہے)

جمعرات کی شام عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق قائم کئے گئے جوڈیشل کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نوازشریف نے کہا کہ آج میں قومی تاریخ کے ایک نہایت اہم موقع پر آپ سے مخاطب ہوں۔2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیق کرنے والے انکوائری کمیشن نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور اس کی رپورٹ حکومت کو موصول ہو گئی ہے۔

انکوائری کمیشن کو تین بنیادی سوالوں پر تحقیق کرنے اور اپنی رائے دینے کے لیے کہا گیاتھا۔ نمبر ایک کیا 2013ء کے عام انتخابات غیر جانبدارانہ ، منصفانہ ، دیانتدارانہ اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ہوئے؟نمبر دو کیا کوئی 2013ء کے انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کے لیے منظم دھاندلی یا سازش کے ذریعے اثر انداز ہوا؟۔نمبر تین کیا الیکشن 2013ء کے نتائج مجموعی طور پر عوامی مینڈیٹ کا درست اور حقیقی اظہار کرتے ہیں؟مکمل چھان بین کے بعد،انکوائری کمیشن نے ان سوالات کے یہ حتمی جوابات دئیے ہیں۔

نمبر ایک الیکشن کمیشن کی حد تک رپورٹ میں بتائی گئی کوتاہیوں سے قطعِ نظر ،ریکارڈ پر موجود تمام شواہد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 2013ء کے عام انتخابات مجموعی اعتبار سے منصفانہ اور قانون کے تقاضوں کے مطابق منعقد کیے گئے۔ نمبر دو نہ تو انکوائری کمیشن کی کارروائی میں شامل پارٹیوں نے کسی ایسے پلان یا سازش کے بارے میں کوئی ثبوت پیش کیے اور نہ ہی کمیشن کے سامنے رکھے گئے مواد سے ایسی کوئی بات سامنے آئی ہے جس سے دھاندلی کے کسی پلان یا سازش کی نشاندہی ہو۔

اسی طرح مبینہ دھاندلی میں ملوث افراد کے خلاف عائد کردہ الزامات بھی ثابت نہیں کیے جا سکے۔نمبر تین جب الیکشن2013ء کو اُن کے مجموعی تناظر میں دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن کی چند کوتاہیوں کے باوجود ،انکوائری کمیشن کے سامنے موجود شواہد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نتائج عوام کے مینڈیٹ کا حقیقی اظہار نہیں تھے۔اس کمیشن کی کارروائی کی تمام تر تفصیلات قوم کے سامنے آ چکی ہیں۔

اس کارروائی سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ ہماری تاریخ میں اپنی نوعیت کے اس پہلے کمیشن نے کس محنت،توجہ اور دانش و حکمت کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کیے اوردھاندلی کی شکایت کرنے والوں کو اپنے الزامات کے ثبوت فراہم کرنے کا پورا موقع دیا ۔پاکستان ہی نہیں، دنیا کی تاریخ میں بھی ایسی مثال کم ہی ملے گی کہ زبردست عوامی حمایت کے ساتھ منتخب ہونے والی کسی حکومت نے اپنے آپ کو کٹہرے میں لاکھڑاکیا ہو۔

ہم نے یہ تحریری ضمانت بھی دے دی تھی کہ دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں ہم حکومت سے الگ ہو کر پھر سے عوام کے پاس جائیں گے۔ ہمار ا یہ عہد اس یقین و اعتماد کا اظہار تھا کہ 2013ءء کے انتخابی نتائج عوامی مینڈیٹ کے عین مطابق تھے اور اُن میں کسی سطح پر کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ اللہ نے ہمیں سرخرو کیا۔ تقریباً تین ماہ کی کارروائی کے بعد انکوائری کمیشن کی جامع رپورٹ ہمارے موقف ہی کی نہیں، پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کی توثیق بھی ہے۔

یہ جمہوریت، آئینی نظام اور اداروں کی بلوغت کی علامت ہے۔یہ اس نظریے کی توثیق ہے کہ مسائل سڑکوں پر نہیں،دھرنوں میں نہیں، دستوری ایوانوں میں حل ہو ں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انتخابی عمل کو ہر اعتبارسے آزادانہ ، منصفانہ اور خرابیوں سے پاک بنانا PML(N)کے منشور کا اہم نکتہ ہے۔ میں نے جون 2014ءء میں سپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھ کر وسیع تر جامع انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کرنے کی درخواست کی تھی۔

میں نے کہا تھاکہ کمیٹی انتخابی اصلاحات کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ ضروری خیال کرے تو آئینی ترامیم بھی تجویز کر سکتی ہے۔ یہ کمیٹی قائم ہو چکی ہے۔ اس کے متعدداجلاس بھی ہو چکے ہیں۔میں توقع کرتا ہوں کہ تمام جماعتیں انتخابی اصلاحات کمیٹی میں بیٹھ کر اپنا بھرپور کردار ادا کریں گی اور یہ کام جلد مکمل کر لیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قوموں کی زندگی میں بے یقینی کے موسم، بے ثمر ہی نہیں تباہ کن بھی ہوتے ہیں۔

بے یقینی سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور سیاسی عدمِ استحکام تعمیرو ترقی کی راہوں پر آگے بڑھتے ہوئے قدم روک دیتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ وطن ِعزیز اس بے یقینی اور عدم استحکام کی کتنی بھاری قیمت ادا کر چکا ہے۔ اگر تقریباً سترّ سالوں پر محیط ہماری سیاسی تاریخ، بے یقینی ، عدم استحکام اور انتشار کا شکار نہ رہتی اور جمہوری نظام میں رخنے نہ پڑتے تو آج ہم زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے۔

نوازشریف نے کہا کہ اب ہمیں ماضی کی کوتاہیوں کی تلافی بھی کرنی ہے، بے یقینی اور عدمِ استحکام پیدا کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی بھی کرنی ہے اور پورے عزم کے ساتھ جمہوری نظام کی چھتری تلے پاکستان کو کروڑوں اہلِ وطن کی آنکھوں میں بسے خوابوں کی تعبیر بھی بنانا ہے۔ ہمارے پاس کھوکھلے نعروں، بے بنیاد دعووں، جذباتی اپیلوں اور بے مقصدتماشوں کے لئے کوئی وقت نہیں۔

اب ہمیں قومی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب رکھنا ہو گا۔ اب ہمیں راستے سے بھٹکا دینے والی آوازوں پر کان دھرنے کی بجائے ، اپنی نظریں مستقبل کی روشن منزلوں پر مرکوز رکھنا ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج میں حکومت کی دو سالہ کارکردگی کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن اللہ تعالیٰ کے بے پایاں شکر کے ساتھ یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستا ن میں ترقی و خوشحالی کا سفرالحمد اللہ شروع ہو چکا ہے۔

آج کا پاکستان، دو سال پہلے والے پاکستا ن سے کہیں بہتر ہے۔ ہماری معیشت تیزی سے مضبوط ہو رہی ہے۔پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر ہو رہی ہے اور انشااللہ تین سال بعد کا پاکستان آج کے پاکستان سے کہیں زیادہ روشن، خوش حال اور توانا ہو گا۔ ہم تیزی کے ساتھ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپریشن ضربِ عضب کے نتائج پوری قوم کے سامنے ہیں۔

ہماری مسلح افواج،سویلین ادارے،تمام Civil Armed Forces اور انتظامیہ اس عظیم مشن کی کامیابی کے عزم سے سرشار ہیں۔ پوری قوم اُن کے اس عزم کی معترف ہے۔ ہم پہاڑوں، جنگلوں اور دُور دراز کی بستیوں کو ہی نہیں انشاء اللہ اپنے شہروں کو بھی دہشت گردی اور لاقانونیت سے نجات دلانے کے لئے پُر عزم ہیں۔ ہم نے وطن عزیز میں امن و خوش حالی کا عہد کر رکھا ہے۔

کوئی سیاسی مصلحت ہمارے اس پختہ عزم کو کمزور نہیں کر سکتی۔وزیر اعظم نے کہا کہ آج جب کہ میں آپ سے مخاطب ہوں، پاکستان کے کئی علاقے بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومتوں سمیت تمام متعلقہ اداروں کو یہ امر یقینی بناناچاہیے کہ متاثرین کے ریسکیو (Rescue)ریلیف (Relief)اور جلد از جلد بحالی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو۔

وفاقی حکومت بھی پوری طرح متحرک ہے۔ میں خود متاثرہ علاقوں میں جا رہا ہوں اور سارے عمل کی نگرانی کر رہا ہوں۔ امدادی کاموں میں مصروف سول اداروں اور مسلح افواج کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں۔ میں قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس مشکل گھڑی میں متاثرین کی ہر ممکن امداد کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت متاثرین کے نقصانات کی تلافی اور اُن کی مکمل بحالی میں انشااللہ کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ایک بار پھر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انکوائری کمیشن کے اس فیصلے کے بعد پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ میں نے کمیشن کی رپورٹ کو عام کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ اب یہ رپورٹ تمام قومی و بین الاقوامی اداروں، سیاسی جماعتوں، میڈیا اور عوام کے ایک ایک فرد کی دسترس میں ہے۔اب جبکہ سب سے بڑے اور بے حد معتبر انکوائری کمیشن نے 2013ءء کے انتخابات کے شفاف اور دھاندلی سے پاک ہونے کی حتمی طور پر توثیق کر دی ہے، الزامات اور بہتان تراشی کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو جانا چاہیے۔

انتخابات کے بعد سے اب تک جو کچھ ہوا ہم اسے فراموش کر رہے ہیں لیکن منصفانہ اور بے داغ انتخابات کو متنازعہ بنا کر پاکستان کو دنیا بھر میں رسوا کرنا ہماری تاریخ کا ایسا افسوس ناک باب ہے جو آسانی سے بھلایا نہ جا سکے گا۔ انہو ں نے کہا کہ میں نے انتخابات کے بعد سے باہمی مشاورت ، مفاہمت اور اتفاق رائے کی تعمیری روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ عوامی مینڈیٹ کے مطابق حکومتوں کے قیام سے لے کر نیشنل ایکشن پلان، آئینی ترمیم اور چین پاکستان اقتصادی راہداری تک یہ سارے تمام بڑے فیصلے قومی اتفاق رائے کے ساتھ کئے ہیں۔

میں قومی معا ملات میں حکومت اور اپوزیشن کی تقسیم پر یقین نہیں رکھتا۔ ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم سب کو پاکستان ہی کے حوالے سے سوچنا چاہیے۔میں نے اقتدار کی سیاست کے بجائے اقدار کی سیاست کا عہد کیا تھا۔اللہ کے فضل و کرم سے ہم اپنے اس عہد پر قائم ہیں۔ ہم نے ذاتی اور جماعتی مفاد کی سطح سے اوپر اٹھ کر ہمیشہ ملک و قوم کے مفاد کو ترجیح دی۔

اپنے اسی نظریے کے تحت ہم نے انکوائری کمیشن کے قیام پر بھی رضامندی ظاہر کی حالانکہ ساری دنیا کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔آپ بھی اس کو اچھی طرح جانتے ہیں ہم نے تمام اشتعال انگیزیوں کے باوجود صبر و تحمل سے کام لیا اور معاملات کو جمہوری جذبے سے حل کرنے کے کوشش کی۔ہم آئندہ بھی انہی اصولوں پر کاربند رہیں گے۔

ہمیں توقع ہے کہ قوم و ملک کا قیمتی وقت برباد کر دینے والے بھی اب سبق سیکھیں گے اور منفی سیاست سے گریز کریں گے۔یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ماضی کی بے ثمر سیاست سے نکال کر مستقبل کی مثبت اور تعمیری سیاست کی طرف لے جا سکتا ہے۔ آئیے ہم انکوائری کمیشن کے تاریخی فیصلے کو سنگ میل سمجھتے ہوئے مکمل یکسوئی کے ساتھ ایک نئے پرعزم سفر کا آغاز کریں ۔ایسا سفر جو انتشار، بے یقینی،الزام تراشی اور عدم استحکام کے اندھیروں کے بجائے ہمیں ترقی وخوشحالی،جمہوری استحکام اور یقین و اعتماد کی نئی روشن منزلوں کی طرف لے جائے۔

متعلقہ عنوان :