پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور عسکری حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات کے نتائج آنا شروع ہوگئے، رینجرز کے قیام میں ایک سال کی توسیع، سندھ حکومت نے ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادر تھیبو سمیت اہم سرکاری افسروں اور 10 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کوعہدے سے ہٹا دیا

ہفتہ 18 جولائی 2015 07:00

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18 جولائی۔2015ء)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور عسکری حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں ، سندھ حکومت نے ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادر تھیبو سمیت اہم سرکاری افسروں اور 10 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کوعہدے سے ہٹا دیا گیا ہے ، رینجرز کے قیام میں ایک سال کی توسیع بھی کردی گئی ہے فیصلے اپیکس کمیٹی کے فیصلوں کے تناظر میں کیے گئے ہیں ۔

جمعہ کو وزیر اعلیٰ ہاوٴس میں وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں سینئیر وزیر مراد علی شاہ، وزیر اطلاعات شرجیل میمن اور سیکریٹری داخلہ سمیت دیگر شریک ہوئے۔ شرجیل میمن نے پیپلز پارٹی چیئرمین اور شریک چیئرمین سے دبئی میں ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں پارٹی قیادت کی جانب سے آئندہ کے لائحہ عمل سے متعلق اہم ہدایت بھی دی گئیں۔

نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے اور سندھ کی موجودہ صورتحال سے متعلق مشاورت کی گئی۔اجلاس میں متعدد اہم فیصلے کیے گئے جن کے تحت غلام قادر تھیبو کو ایڈیشنل آئی جی پولیس کراچی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور انہیں چیئرمین اینٹی کرپشن تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،ان کی جگہ مشتاق مہر کو ایڈیشنل آئی جی پولیس کراچی تعینات کردیا گیا ہے،غلام قادر تھیبو کو گزشتہ سال جون میں اس عہدے پرتعینات کیا گیا تھا تاہم ایک سال سے زائد عرصے کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر مشتاق مہرکو نیا کراچی پولیس چیف تعینات کردیا گیا جب کہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مشتاق مہرڈی آئی جی کرائم برانچ ہیں اور ان دنوں چھٹیوں پر سرکاری دورے پر امریکا میں موجود ہیں اورعید کے بعد واپسی پرعہدے کا چارج سنبھالیں گے ۔

جب کہ پولیس کے گریڈ 21 کے افسر ذاکر حسین کو محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کو رپورٹ کرنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اعجاز علی شیخ کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ۔ اسی طرح سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی منظورقادرکوعہدے سے ہٹادیاگیا ہے ،سیکریٹری کارپوریشن شادرشمعون کو بھی عہدے سے ہٹادیاگیا ہے ،ایڈمنسٹریٹرکراچی ثاقب سومرو کو بھی عہدے سے ہٹادیاگیا ہے۔

یاد رہے کہ منظور قادر کاکا، شاذر شمعون اور ثاقب سومرو بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں اور ان کے خلاف نیب مختلف ریفرنسز کا جائزہ بھی لے رہی ہے ۔دادو ، جامشورو ، شکار پور ، سانگھڑ ، میر پور خاص کے ڈپٹی کمشنر کو عہدوں سے ہٹایا گیا ہے۔ ایڈمنسٹریٹر حیدر آباد خالد شیخ کو عہدے سے ہٹا کر ڈپٹی منیجر واٹر بورڈ لگا دیا گیا۔ذرائع کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز دبئی میں پیپلز پارٹی کے غیر رسمی اجلاس میں یہ تمام فیصلے کیے گئے تھے جس کے بعد جمعہ کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے ۔

واضح رہے کہ گذشتہ اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے قبل چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کور کمانڈر کراچی نوید مختار سے ملاقات کی تھی ،ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کے تحت ہونے والی تبدیلیوں کا پس منظر یہی ملاقات ہے ۔دوسری جانب سندھ حکومت نے رینجرز کے صوبے میں قیام میں ایک سال کی توسیع کردی ہے۔ وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ کی منظوری کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔

صوبائی حکومت کو رینجرز کے اختیارات میں توسیع کی توثیق سندھ اسمبلی سے کرانا ہوگی۔پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کو رینجرز کے قیام میں توسیع کی ہدایت کی تھی۔آرٹیکل 147 کے تحت پولیس اور سول انتظامیہ کی مدد کے لیے رینجرز کے قیام میں توسیع کی گئی۔رینجرز کے قیام کی مدت ایک ماہ بعد ختم ہو رہی تھی، اس سے قبل رینجرز کے اختیارات میں ایک ماہ کی توسیع کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

انسداد ہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 4 کے تحت ملنے والے اختیارات کے تحت رینجرز ملزمان کو گرفتار کر سکے گی جبکہ تفتیش کے لیے ملزم کو 90 روز کے لیے تحویل میں رکھنے کا اختیار حاصل ہو گا۔وزارت داخلہ کی جانب سے نوٹیفیکیشن کے ذریعے رینجرز کو ملنے والے اختیارات کی توثیق سندھ اسمبلی سے بھی کروائی جائے گی۔واضح رہے کہ 12 جون کو سندھ ایپکس کمیٹی میں رینجرز کے ڈی جی میجر جنرل بلال اکبر نے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کراچی میں غیر قانونی طریقوں سے 230 ارب روپے سالانہ وصول کیے جاتے ہیں جن کا استعمال مجرمانہ سرگرمیوں میں کیا جاتا ہے۔

اس رپورٹ کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی سندھ حکومت اور سندھ رینجرز میں ابتدائی طور پر معاملات میں گرما گرمی آئی۔البتہ 15 جون کو رینجرز کی جانب سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا اور مختلف امور کی چھان بین کے ساتھ ساتھ کئی افسران کو حراست میں بھی لیا گیا۔اس چھاپے کے بعد 17 جون کو آصف زرداری نے پارٹی کی ایک تقریب سے خطاب میں اسٹیبلشمنٹ اور مقتدر حلقوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

سابق صدر آصف زرداری نے فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کا کہنا تھا کہ فوج کے جنرل ہر تین سال میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں البتہ سیاستدان ملک میں ہمیشہ رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہتر جانتے ہیں کہ ملک کے معاملات کو کیسے چلانا ہے۔بعد ازاں پیپلز پارٹی کے رہنماوٴں نے ان کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ آصف زرداری نے کسی بھی ادارے پر تنقید نہیں کی۔

البتہ آصف زداری کے اس خطاب کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے ان سے طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی تھی۔وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ تقریر کے بعد نواز شریف کی آصف زرداری سے ملاقات منسوخ کرنا ضروری تھا۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری اس خطاب کے ایک ہفتے بعد ہی ملک سے باہر چلے گئے تھے۔آصف زرداری 25 جون سے دبئی میں مقیم ہیں جبکہ انہوں نے پارٹی رہنماوٴں کے لیے افطار ڈنر کا اہتمام بھی دبئی میں کیا تھا۔