امریکی محکمہ خارجہ نے بھی مقبوضہ کشمیر میں ”افسپا“کو کالا قانون قرار دے دیا ،فرضی جھڑپوں،حراستی ہلاکتوں و گمشدگیوں،وادی میں گمنام قبروں کی دریافت اورپبلک سیفٹی ایکٹ کے اطلاق کو باعث تشویش کا اظہار

جمعرات 9 جولائی 2015 09:52

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9 جولائی۔2015ء)ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے نافذ ”افسپا“کو کالا قانون قرار دے دیا ہے،رپورٹ میں فرضی جھڑپوں،حراستی ہلاکتوں و گمشدگیوں،وادی میں گمنام قبروں کی دریافت اورپبلک سیفٹی ایکٹ کے اطلاق کو بھی باعث تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے انسانی حقوق سے متعلق اپنی رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بھارت جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث سیکورٹی فورسز اہلکاروں کو جوابدہی سے بچانے کیلئے ”آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ“ کا استعمال کررہا ہے۔

رپورٹ میں فرضی جھڑپوں،حراستی ہلاکتوں و گمشدگیوں،وادی میں گمنام قبروں کی دریافت اورپبلک سیفٹی ایکٹ کے اطلاق کو بھی باعث تشویش قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ریاستی انسانی حقوق کمیشن کو نیم فوجی اہلکاروں کی طرف سے حقو ق البشر کی مبینہ پامالیوں کی تحقیقات کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

(جاری ہے)

68صفحات پر مشتمل”انڈیا2014ہیومن رائٹس رپورٹ“ کے عنوان سے یہ خصوصی رپورٹ بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس اینڈ لابر نے مرتب کی ہے جوامریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کی ہے۔

رپورٹ میں انسانی حقوق کی پامالیوں ، حراستی گمشدگی، جیلوں کی ابتر حالت اور بغیر مقدمہ چلائے طویل عرصے تک شہریوں کوحراست میں رکھنے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔رپورٹ کے مطابق”حکام حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کیلئے سیکورٹی فورسز کو جوابدہی سے بچانے کیلئے کئی قوانین کااستعمال کررہے ہیں جن میں کریمنل پروسیجر کوڈ اور افسپا بھی شامل ہیں۔

رواں ماہ کی 5تاریخ کو ریاست میں افسپا کے نفاذ کو25سال مکمل ہوگئے ، فورسز کو خصوصی اختیارات دینے والا یہ قانون5جولائی1990کوپہلے کشمیر اور راجوری و پونچھ کے بعض علاقوں کو”ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ“ کے زمرے میں لاکر نافذ کیا گیا تھا جبکہ سال2001میں پورے جموں خطے کو ”ڈسٹربڈ ایریا“ قرار دیکر افسپا کا اطلاق عمل میں لایا گیا۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت میں گزشتہ برس کے دوران افسپا کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں سیکورٹی فورسز اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائے جانے کا کوئی سرکاری ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے”افسپا کے تحت خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث سیکورٹی فورسزاہلکاروں کوسول عدالتوں میں مقدمہ چلانے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے“۔رپورٹ میں غیر سرکاری رضا کار تنظیموں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق افسپا کے تحت حاصل قانونی تحفظ کی وجہ سے مسلح افواج کو جموں کشمیر میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کیلئے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت کے مطابق افسپا کی واپسی کا اختیار مرکز کو ہے جبکہ ریاستی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت ہی اس بات کا فیصلہ کرنے کی مجاذ ہے۔رپورٹ میں فرضی جھڑپوں میں عام شہریوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شورش زدہ علاقوں میں پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت ہلاکتوں کے واقعات پیش آرہے ہیں۔

امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹ میں حراستی گمشدگیوں اور ہلاکتوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے قانون ساز کونسل میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 1990سے ریاست میں341افراد پولیس حراست میں مارے گئے۔رپورٹ کے مطابق اْس وقت کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ناظم کی ہلاکت کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے تعبیر کرتے ہوئے ملوثین کے خلاف عبرتناک کارروائی کا اعلان کیا تھا اور اس واقعہ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر نہ صرف فورسز کی اضافی تعداد طلب کی گئی بلکہ پی ڈی پی صدر محبوبہ اور حریت پسند لیڈر سید علی گیلانی کو نظر بند کیا گیا۔

رپورٹ میں وادی میں گمنام قبروں کی دریافت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ریاستی انسانی حقو ق کمیشن نے شمالی کشمیر میں 38مختلف مقامات پر2156گمنام قبروں کی دریافت سے متعلق عبوری رپورٹ مرتب کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جموں کشمیر کے انسانی حقوق کمیشن کو نیم فوجی سیکورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کی تحقیقات کرنے کا اختیار بھی حاصل نہیں ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے” انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیاں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے حد اختیار میں ہیں لیکن ان معاملات کو چھوڑ کر جن میں فوج ملوث ہو، ان علاقوں میں افسپا کے تحت آنے والے جموں کشمیر اور ملک کے دیگر حصے شامل ہیں“۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ صرف جموں کشمیر میں لاگو ہے اور اسکے تحت حکام کسی بھی شہری کو کسی بھی الزام یا عدالتی کارروائی کے دو سال تک نظر بند کیا جاسکتا ہے۔اس دوران قیدی کے گھروالوں کو اس سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور نہ ہی نظر بندوں کو قانونی امداد فراہم کی جاتی ہے۔رپورٹ کے مطابق اس طرح ریاستی پولیس عموماً غیر قانونی گرفتاریوں کی مرتکب ہورہی ہے ۔