نیب نے150میگاسکینڈل کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ،50 کیسز سرکاری عہدوں کے ناجائز استعمال اور غیر قانونی بھرتیوں میں مالی بے ضابطگیوں ، بے تحاشا کرپشن سے متعلق ہیں،کھربوں روپے کے کرپشن کیسز اور سرکاری عہدوں کے ناجائز استعمال میں وزیر اعظم محمد نواز شریف ، وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف سمیت سابق صدر آصف علی زرداری ، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کے، چوہدری شجاعت اور پرویز الہی کے نام بھی شامل،رینٹل پاور پروجیکٹس کی کرپشن میں راجہ پرویز اشرف بازی لے گیا

بدھ 8 جولائی 2015 09:52

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن ۔8 جولائی۔2015ء)قومی احتساب بیورو(نیب )نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف،اسحاق ڈار ،آصف علی زرداری ،یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کیخلاف بد عنوانی کے مقدمات سمیت 150 میگاسکینڈلز تمام تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں۔رپورٹ میں بد عنوانی کے 150میگا اسکینڈلز کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے درجے میں پچاس مالی میگا اسکینڈلز دوسرے درجے میں پچاس زمینوں کے میگا اسکینڈلز اور تیسرے درجے میں اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق پچاس میگا سکینڈلز کی تمام تفصیلات درج کی گئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق نیب نے 15 مالیاتی اسکینڈلز ،8 زمین اور 15 اختیارات کے ناجائز استعمال پر ریفرنس دائر کیے گئے۔رپورٹ کے مطابق 50میگا مالیاتی سکینڈلز میں بائیس مقدمات ،زمین کے 29اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے20 مقدمات پر انکوائری ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

اسی طرح 13مالیاتی مقدمات ،13زمینی تنازعات اور 15 اختیارات کے غلط استعمال کے مقدمات پر تفتیش کا عمل جاری ہے۔

رپورٹ میں نواب اسلم رئیسانی ، میر عبدلغفور لہری کے بدعنوانی کے مقدمات کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ نیب رپورٹ میں اسحاق ڈار منی لاڈرنگ کیس ، چوہدری شجاعت اثاثہ جات کیس ، سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی او گرا بد عنوانی کیس کی تفصیلات بھی درج ہیں۔نیب رپورٹ میں سابق صدر آصف علی زرداری اثاثہ جات کیس ، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف رینٹل پاور کیس اور حسین حقانی تین ریڈیو سٹیشنز کے لائسنس کے اجراء کی تفصیلات بھی درج ہیں۔

نیب رپورٹ میں وزیر اعظم میاں نواز شریف ایف آئی اے بھرتیوں کیس کی تفصیلات بھی درج ہیں۔نیب رپورٹ میں آفتاب احمد شیرپاوٴ ، توقیر صادق اور راجہ پرویز اشرف کی بد عنوانیوں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔تفصیلات کے مطابق قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے 150 میگاسکینڈل کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا ئی ہے جس میں کرپشن اور سرکاری عہدوں کے ناجائز استعمال میں وزیر اعظم محمد نواز شریف ، وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف سمیت سابق صدر آصف علی زرداری ، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی،چوہدری شجاعت اور پرویز الہی کے نام بھی آئے ہیں اور کرپشن کے حوالے سے ان کے کیسز کی انکوائری ہو رہی ہے ۔

پہلا کیس ایف بی آر کے سابق چیئرمینوں عبداللہ یوسف ، المان صدیق ، علی ارشد حکیم ، پی اے سی سی کے سابق ڈائریکٹر اظہر مجید خالد ، ایڈیشنل کلکٹر کسٹم عشیر عظیم گل اور دیگر کے خلاف ہیں ۔ان پر کمپنی ایجلیٹی کو ٹھیکہ دینے میں اختیارات کے ناجائزاستعمال کا الزام ہے اور 11 ملین ڈالر کے خرد برد اور مالی بے ضابطیگی کی انکوائری بھی جاری ہے ۔دوئم این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی کے خلاف انکوائری ہے ۔

اس انکوائری میں سرکاری عہدیداروں اور دیگر بھی شامل ہیں ۔اختیارات کے ناجائز استعمال کے اس کیس میں سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لے رکھا ہے اور 65 ملین کی انکوائری زیر تکمیل ہے ۔تیسرے کیس میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلی اسلم خان رئیسانی اور دیگر کے خلاف بھرتیوں میں اختیارات کے ناجائز استعمال پر انکوائری ہو رہی ہے اور ذرائع کی رپورٹ پر یہ انکوائری عمل میں لائی گئی ہے ۔

تاہم اس کیس میں مالی بے ضابطگی کا تعین ہونا ابھی باقی ہے ۔چوتھے کیس میں سابق وزیر سپورٹ بلوچستان شاہ نواز مری کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال پر یہ انکوائری ہو رہی ہے ۔8 ارب روپے خرد برد ہونے پر انکوائری ہو رہی ہے ۔اختیارات کے ناجائز استمعال کی پانچویں انکوائری وزارت و صنعت و تجارت کوئٹہ کے حکام کے خلاف ہو رہی ہے ۔یہ انکوائری درزادہ قومی اتحاد مکران کے شکایت پر عمل میں لائی گئی ہے اور اس میں رقوم بے ضابطگیوں کا تعین ہونا باقی ہے ۔

ڈی جی، بی سی ڈی اے محمد الیاس کے خلاف بھی سردار سلمان نامی شہری کی درخواست شکایت پر انکوائری ہو رہی ہے جس میں 100 ملین کی مالی بے ضابطگی کی تفتیش ہو رہی ہے ۔پیپکو ، پیسکو ، المعیز شوگر ملز ڈی آئی جی خان اور دیگر افسران کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال بجلی کے غیر قانونی خرید و فروخت کی انکوائری بھی زیر تکمیل ہے اور اس میں خرد برد کی رقوم کا تعین ابھی باقی ہے ۔

عبوالولی خان یونیورسٹی مردان کے افسران اور سرکاری عہدیداران کے خلاف انکوائری کا کیس درج ہے ۔ جس میں ملزمان وائس چانسلر ڈاکٹر احسن علی ، شیر علی رجسٹرار اور ڈاکٹر امین شامل ہیں اور ان پر غیر قانونی بھرتیوں میں اختیارات کے ناجائز استعمال شامل ہے اور خرد برد اور مالی بے ضابطگی کی انکوائری جاری ہے ۔ہزارہ یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر سہیل شہزاد کے خلاف بھی بھرتیوں میں اختیارات کے ناجائز استعمال کی انکوائری جاری ہے ۔

سابق ایم این اے فردوس عاشق اعوان کے خلاف بھی سرکاری کی شکایت پر منقولہ جائیداد میں خردبرد اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی انکوائری ہو رہی ہے اور خرد برد کا تعین کیا جا رہا ہے ۔متلوکہ املاک بورڈ کے سابق چیئرمین آصف ہاشمی کے خلاف کی بھی انکوائری ہو رہی ہے یہ انکوائری بورڈ کے چیئرمین کی شکایت پر شروع کی گئی ہے جس میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھرتیاں کی گئی ہیں ۔

جی ای شرقطپور کو ٹھیکہ دینے میں سرکاری عہدیداروں اور افسران کے خلاف بھی انکوائری ہو رہی ہے ۔جس میں ملزمان سابق راجہ پرویز اشرف ، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین اور دیگر کے خلاف آر پی پی کے ایوارڈ میں اختیارات کے ناجائز استعمال کی انکوائری ہو رہی ہے ۔اس کیس کی سپریم کورٹ کے حکم پر تفتیش ہو رہی ہے اور اس میں 2.9 ارب کی تفتیش ہو رہی ہے ۔436 ملین غبن کے ایک دوسرے کیس میں سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ، شوکت ترین ، شاہد رفیع ، اسماعیل قریشی ، فضل احمد خان اور منور بشیر کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے جس میں انہوں نے اختیارات کے ناجائز استعمال کرتے ہوئے کمپنی ینگ جنریشن پاور ستیانہ کو آر پی پی کا کنٹریکٹ دیا ۔

380 ملین کے ایک اور کیس میں بھی راجہ پرویز اشرف ، شاہد رفیع ، شوکت ترین کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے ۔پاکستان انٹرنیشنل سکول جدہ کے سابق پرنسپل سینیٹر سحر کامران کے خلاف بھی سکول فنڈز میں ایک کروڑ 70 لاکھ ریال کی خرد برد کی تفتیش جاری ہے ۔اس طرح راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم کی پرنسپل سیکرٹری ، وزارت ہاؤسنگ و ورک کے خلاف بھی مستند رپورٹ پر چکوال ، گوجر خان روڈ کی تعمیر میں فنڈز کے اجراء میں خرد برد کی تفتیش جاری ہے اور رقوم کا تعین کیا جا رہا ہے ۔

راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور دیگر سرکاری عہدیداروں کے خلاف بھی انکوائری ہو رہی ہے ۔ جن پر میٹر وبس پراجیکٹ میں بے ضابطہ ٹھیکے دینے میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں ۔یونیورسل سروس فنڈ کے خلاف بھی انتظامیہ کے خلاف 128 ملین روپے کی خرد برد کی تفتیش جاری ہے ۔سینڈک کمپنی کے سرکاری عہدیداروں کے خلاف بھی غیر قانونی بھرتیوں میں اختیارات کے ناجائز استعمال کی انکوائری ہو رہی ہے اور رقوم کا تعین ہونا باقی ہے ۔

حکومت خیبرپختونخوا کے سابق سیکرٹری محمد طارق اعوان کے خلاف بھی 800 ملین کی انکوائری ہو رہی ہے ۔ اس میں انہوں نے سکول بلڈنگ کو کرایہ پر لینے میں خرد برد کی ۔ایف بی آر ریونیو سروسز اور دیگر کے خلاف بھی 2.5 ارب کے مالی بے ضابطگی کی تفتیش ہو رہی ہے ۔ جس میں انہوں نے سیلز ٹیکس ریفنڈ اور بوگس انوائسسز پر قومی خزانے کو بے تحاشا نقصان پہنچایا ۔

یہ انکوائری ایک مستند رپورٹ پر عمل میں لائی جا رہی ہے ۔ انلینڈ ریونیو کے ریٹائرڈ کمشنر رائے طلب مقبول کے خلاف بھی ایف بی آر کی شکایت پر انکوائری ہو رہی ہے ۔جس میں جعلی سیلز ٹیکس کے ریفنڈ کے اجراء میں اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا ۔جس میں 223 ملین روپے کی خرد برد کی انکوائری ہو رہی ہے ۔ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفیسر سکندر علی آبرو کے خلاف بھی کنٹرولر جنرل کی شکایت پر جی پی فنڈ میں خرد برد اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی انکوائری جاری ہے اور اس میں 550 ملین روپے خرد برد کی انکوائری جاری ہے ۔

اس کیس میں علی حسن آبرو سے وی آر کے ذریعے سے 500 ملین روپے ریکور کر لئے ہیں ۔متلی ضلعی بدین کے ٹی ایم او طارق حمید احمد آبرو ، منور ظریف اور دیگر کے خلاف بھی تفتیش جاری ہے ۔نیشنل بنک ، ایئرپورٹ برانچ کراچی کے ظفر علی زبیری ، شکیل احمد ، وقاص احمد اور دیگر کے خلاف بھی کسٹمر کے اکاؤنٹ سے فنڈز نکالے جانے کی شکایات ہیں منیجر ایئرپورٹ برانچ کی شکایت پر ان کے خلاف 385 ملین کے مالی رقوم کی خرد برد کی تفتیش جاری ہے ۔

پاکستان سٹیل ملز انتظامیہ کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر بھی تفتیش جاری ہے اور اس میں سٹیل ملز کے سابق چیئرمین معین آفتاب شیخ اور سابق ڈائریکٹر کمرشل ثمین اصغر ، رسول بخش کو ملزمان ٹھہرایا گیا ہے اور ان پر سٹیل مصنوعات الیلوکیٹ کرنے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں اور 1.235 ارب روپے کی تفتیش جاری ہے ۔ایس ایم بی آر اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ افسران کے خلاف بھی تفتیش جاری ہے اور اس میں فیلڈ ورکرز ریونیو کی شکایت پر افسر احسن اللہ خان کے خلاف بھرتیوں میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف انکوائری جاری ہے ۔

سابق وفاقی وزیر چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الہی کے خلاف بھی مستند ذرائع کی رپورٹ پر اختیارات کے ناجائز اثاثہ جات بنانے کا کیس زیر تفتیش ہے اور اس میں 2.728 ارب روپے کی تفتیش جاری ہے ۔اس طرح سابق وزیر خزانہ استحاق ڈار کے خلاف بھی اپنے ذرائع سے ہٹ کر اثاثہ جات بنانے کی تفتیش کی جا رہی ہے اس خرد برد میں 23 ملین روپے ، لاکھوں برطانوی پاؤنڈ اور 1250 امریکی ڈالر کی تفتیش ہو رہی ہے ۔

وزیر اعظم محمد نواز شریف اور وزیر اعلی شہباز شریف اور دیگر کے خلاف 126 ملین کیس کی تفتیش ابھی جاری ہے ۔ اس کیس میں محمد نواز شریف اور شہباز شریف کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے ۔ جس میں رائیونڈ سے شریف فیملی ہاؤس تک روڈ کی تعمیر میں اختیارات کے ناجائز استعمال کیا یا ہے اور مالی بے ضابطگیاں بھی کی گئیں ۔سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ، شوکت ترین ، فضل احمد خان ، طاہر چیمہ ، شاہد رفیع اور بشارت چیمہ کے خلاف بھی آر سی پی کا ٹھیکہ دینے میں اختیارات کے ناجائز استعمال کا کیس زیر تفتیش ہے اور اس میں مجموعی طور پر 14 ملین روپے کی تفتیش جاری ہے ۔

یہ کیس سپریم کورٹ کے حکم پر تفتیش کیا جا رہا ہے ۔کمپنی ، پاکستان پاور ریسورسیز کو آر پی پی کا کنٹریکٹ دینے میں سرکاری عہدیداروں کے خلاف تفتیش جاری ہے اور 449 ملین روپے کی تفتیش زیر تکمیل ہے ۔سابق سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات حسین حقانی کے خلاف بھی تین پرائیویٹ کمپنیوں کو ایف ایم لائسنس دینے کی تفتیش بھی جاری ہے اور خرد برد کا تعین کیا جا رہا ہے ۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف بھی ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں کی تفتیش جاری ہے ۔یہ انکوائری میجر جنرل (ریٹائرڈ ) ایم ایچ انصاری کی شکایت پر ہو رہی ہے ۔پولیس ڈیپارٹمنٹ کے پی کے کے پرچیز کمیٹی کے اراکین اور سابق آئی جی ملک نوید کے خلاف بھی اسلحہ و سازسامان کی خریداری پر 2.03 ارب روپے کا کیس زیر تفتیش ہے اور اب 400 ملین روپے پلی بارگینگ کے ذریعے وصول کئے جا چکے ہیں ۔

ریلوے کے جنرل منیجر سعید اختر کے خلاف سرکاری فنڈ میں خرد برد کا کیس زیر تفتیش ہے اور اس میں 3.7 ملین ڈالر کی تفتیش کی جائے گی ۔سپریم کورٹ کے حکم پر چیئرمین اوگرا توقیر صادق اور دیگر افسران کے خلاف بھی 80.56 ارب روپے کی خرد برد کیس کی تفتیش جاری ہے ۔اس طرح سابق صدر اور سابق سینیٹر آصف علی زرداری کے خلاف بھی ناجائز اثاثہ جات بنانے کے کیس کی تفتیش جاری ہے ۔

سابق صدر پر 22 بلین روپے اور 1.5 امریکی ڈالر پر مشتمل خردبرد کا کیس زیر تفتیش ہے ۔سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ، شوکت ترین اور دیگر پر 2.5 ارب روپے خرد برد کا الزام ہے کہ انہوں نے ٹیکنو کی پاور پرائیویٹ لمٹیڈ سمندری فیصل آباد کو آر پی پی کا کنٹریکٹ دینے میں مالی بے ضابطگی کی ۔سپریم کورٹ کے حکم پر ایک دوسرے کیس میں بھی راجہ پرویز اشرف ، راجہ بشارت اور شاہد رفیع کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے ۔

ان پر الزام ہے کہ انہوں نے والٹر پاور انٹرنیشنل نوڈیرو کو ٹھیکہ دینے میں 915608 امریکی ڈالر اور 7.55 ملین روپے کی خرد برد کی اور اس کیس کی تفتیش جاری ہے ۔اس طرح سپریم کورٹ کے حکم پر کرپشن کے ایک اور کیس میں راجہ پرویز اشرف ، شاہد رفیع ، اسماعیل قریشی ، این اے زبیری ، فضل احمد خان ، طاہر بشارت ، کو نامزد کیا گیا ہے ار ان پر 795.7 ملین روپے اور 128 امریکی ڈالر کی خرد برد کا الزام ہے ۔

ای او بی آئی کے کے سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل اور سابق وزیر اعظم پرویز اشرف کے خلاف بھی ای او بی آئی میں غیر قانونی بھرتیوں میں 567 ملین خرد برد کا کیس زیر تفتیش ہے ۔پاکستان پاور ریسورسز سندھ کو آر پی پی ٹھیکہ دینے پر بھی سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ، شاہد رفیع ، اسماعیل قریشی ، طاہر بشارت چیمہ ، فضل احمد ، منور بشیر پر بھی کرپشن کیس زیر تفتیش ہے جس میں 250 ملین روپے سے زائد خرد برد کی گئی ہے ۔

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے خلاف بھی 46 ملین روپے کی کرپشن کا الزام ہے ۔ یہ الزام بھی ہے انہوں نے چیئرمین اوگرا توقیر صادق کی تعیناتی میں اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے ۔ ایم ڈی پی ٹی ڈی سی میر شاہجہان کیھتران اور دیگر کے خلاف بھی یونین کی ملازمین کی شکایت پر 22 ملین روپے کا کیس زیر تفتیش ہے ۔ایک اور کیس میں ٹیکنو انجینئرنگ سروسز سیالکوٹ کو ٹھیکہ دینے میں بھی سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور دیگر کو سپریم کورٹ کے حکم پر ملزم ٹھہرایا گیا ہے اور ان پر 21 ملین روپے کی خرد برد کی انکوائری ہو رہی ہے ۔

حکومت بلوچستان کے سابق سیکرٹری محمد زہری کے خلاف بھی میڈیکل کے سازو و سامان کی خریداری پر 10 ملین روپے کی خردبرد کا الزام ہے ۔3.103 ملین روپے کا کیس بھی سپریم کورٹ کے حکم پر سابق وزیر عظم راجہ پرویز اشرف ، شاہد رفیع ، شوکت ترین ، اسماعیل قریشی اور دیگر کے خلاف زیر تفتیش ہے اور ان پر پاکستان پاور ریوسورسز ملتان کو کنٹریکٹ دینے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے ۔ورکرز ویلفیئر بورڈ کے پی کے سابق سیکرٹری طارق اعوان اور دیگر عہدیداروں کے خلاف بھی 517 ملین روپے کا کیس زیر تفتیش ہے ۔ جس کی سماعت رواں ماہ جاری ہے اور ان پر ساز و سامان کی خریداری میں اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے ۔