آپریشن کے نتیجے میں اب تک 20000 دہشت گرد ہلاک و زخمی اور 2500گرفتار ہوئے، ترجمان وزارتِ داخلہ، آئی ای ڈی بم بنانے والے 400 گرفتار اور 100نیٹ ورکس کوتوڑا جا چکا ہے ۔اب تک ممنوعہ آرگنائزیشن کے 8111 کارکنوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالا جا چکا ہے اور ان میں سے 1026 کے خلاف باقاعدہ کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ حوالہ/ہنڈی اور مشکوک رقوم کی ترسیلات روکنے اور اینٹی منی لانڈرنگ کے سلسلے میں اب تک ایف آئی اے اور سٹیٹ بنک نے تقریباً دو ارب روپے سے زائد کی ٹرانزیکشن پر یا تو کیسز بنائے ہیں یا ان فنڈز کو منجمد کیا ہے، وضاحتی بیان

اتوار 5 جولائی 2015 09:22

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5 جولائی۔2015ء) ترجمان وزارتِ داخلہ نے کہا ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں اب تک 20000 دہشت گرد ہلاک و زخمی اور 2500گرفتار ہوئے ہیں۔ آئی ای ڈی بم بنانے والے 400 گرفتار اور 100نیٹ ورکس کوتوڑا جا چکا ہے ۔اب تک ممنوعہ آرگنائزیشن کے 8111 کارکنوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالا جا چکا ہے اور ان میں سے 1026 کے خلاف باقاعدہ کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔

حوالہ/ہنڈی اور مشکوک رقوم کی ترسیلات روکنے اور اینٹی منی لانڈرنگ کے سلسلے میں اب تک ایف آئی اے اور سٹیٹ بنک نے تقریباً دو ارب روپے سے زائد کی ٹرانزیکشن پر یا تو کیسز بنائے ہیں یا ان فنڈز کو منجمند کیا ہے۔اپنے ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے سر آنکھوں پر مگر یہ تاثر درست نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر "ایک ٹکے کا کام بھی نہیں ہوا"۔

(جاری ہے)

ترجمان نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو صرف ہمارے اپنے اعدادو شمار ہی نہیں بین الاقوامی ادارے اور تھنک ٹینکس پاکستان کو ان چند ممالک میں شمار نہ کرتے جن کے اندر دہشت گردی کی کاروائیاں گزشتہ سال بتدریج کم ہوئی ہیں۔ اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ این جی اوز اور ان کی فنڈنگ نہ تو نیشنل ایکشن پلان کے دائرہ کار میں ہے نہ ہی ان کا نیشنل ایکشن پلان کے کسی نکتے میں کوئی ذکر ہے۔

ترجمان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے کسی ایک ڈیپارٹمنٹ، ادارے یا وزارت کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ قومی ایجنڈا ہے اور اس پر عمل درآمد کے لئے وفاقی حکومت کی متعدد وزارتیں، انٹیلی جنس ایجنسیاں، افواجِ پاکستان اور صوبائی حکومتیں مل کر کوشاں ہیں۔ کئی نکات پر سالوں کا کام مہینوں میں ہوا ہے اور اس کے بڑے اچھے نتائج نکلے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ کئی نکات ایسے بھی ہیں جن پر مختلف وجوہات کی وجہ سے عمل درآمد کی رفتار سست ہے اور اسے تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

ترجمان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کی ایک تفصیلی رپورٹ آئندہ ہفتے عدالتِ عالیہ میں پیش کر دی جائے گی مگر سر دست اب تک کی پیش رفت مختصراً درج ہے ۔اب تک 54376 کامیاب آپریشن ہو چکے ہیں جن کے نتیجے میں 60420گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔اب تک 3019انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جا چکے ہیں اور 1388انٹیلی جنس شیئر ہوئیں۔بایئومیٹرک کے ذریعے موبائل سمز کی تصدیق کے عمل میں اب تک 97.9ملین(نو کروڑ اناسی لاکھ) سمز کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ5.1ملین (51لاکھ) سمز بلاک کر دی گئیں ہیں۔

یہ عمل سات سال سے تعطل کا شکار تھا اور اسے صرف تین مہینوں میں مکمل کیا گیا۔نفرت اور اشتعال انگیز مواد کی تشہیر روکنے کے سلسلے میں اب تک 1776کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں اور 1799گرفتاریاں عمل میں آئیں ہیں جبکہ 1512 کتب اور دیگر مواد ضبط اور 71دکانیں سیل کی جا چکی ہیں۔ کراچی میں آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردی اور جرائم کی شرح میں واضح کمی آئی ہے اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔

آپریشن کے نتیجے میں ٹارگٹ کلنگ میں 44فیصدکمی، قتل کے واقعات میں 37، دہشت گردی46، چوری میں23 فیصد، جبکہ 55,962 جرائم پیشہ عناصر گرفتار ہوئے ہیں جن میں 688دہشت گرد تھے۔ ضرب عضب نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور ان کی صلاحیت پر کاری ضرب لگائی ہے۔ آپریشن کے نتیجے میں اب تک 20000 دہشت گرد ہلاک و زخمی اور 2500گرفتار ہوئے ہیں۔ آئی ای ڈی بم بنانے والے 400 گرفتار اور 100نیٹ ورکس کوتوڑا جا چکا ہے ۔

اب تک ممنوعہ آرگنائزیشن کے 8111 کارکنوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالا جا چکا ہے اور ان میں سے 1026 کے خلاف باقاعدہ کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ حوالہ/ہنڈی اور مشکوک رقوم کی ترسیلات روکنے اور اینٹی منی لانڈرنگ کے سلسلے میں اب تک ایف آئی اے اور سٹیٹ بنک نے تقریباً دو ارب روپے سے زائد کی ٹرانزیکشن پر یا تو کیسز بنائے ہیں یا ان فنڈز کو منجمند کیا ہے۔

ایپیکس کمیٹیاں باقاعدگی سے میٹینگ کرتی ہیں اور نیشنل ایکشن پلان پر پیش رفت کو مانیٹر کرتی ہیں۔ اب تک ان کمیٹیوں کی 27 میٹینگز ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ سو شل میڈیا پر پھیلائے جانے والے مواد کو کنٹرول کرنے ،افغان مہاجرین کی واپسی، دہشت گردوں کے مالی ذرائع کو مکمل طور پر بند کرنے، فاٹا میں ریفارمز اور مدارس کی ریجسٹریشن جیسے معاملات پر کام جاری ہے اور ان تمام امور پر مکمل عمل درآمدمیں اندرونی و بیرونی رکاوٹیں ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ جہاں تک این جی اوز کا تعلق ہے تو وہ سرے سے ہی نیشنل ایکشن پلان میں شامل نہیں اور عرصہ دارز سے مختلف حکومتوں کے ادوار میں مادر پدر آزادی سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کا بھی کریڈٹ موجودہ حکومت کو ہی جاتا ہے کہ اس نے اس چیز کا نو ٹس لیا۔ کئی بین الاقوامی این جی اوز کے ویزوں پر پابندی لگائی، چند ایک کو کام کرنے سے روک دیا گیا، کچھ کو ملک بدر کیا گیا اور چند ایک پر پابندی لگائی گئی۔

سالہا سال سے اس ابتر پالیسی کا نوٹس لیتے ہوئے گزشتہ روز وزیراعظم نے این جی اوز کے تمام معاملات اکنامک افیئر ڈویژن سے لے کر وزارتِ داخلہ کے سپرد کرنے کے احکامات جاری کیے اور وزارتِ داخلہ کو تمام معاملات کو منظم کرنے کیلئے چھ مہینے کا وقت دیا ۔ جس میں فنڈنگ کی ریگولیشن بھی شامل ہے۔ وزارتِ داخلہ اس پر تیزی سے کام کر رہی ہے اور اس سلسلے میں ایک مکمل اور مربوط نظام انشاء اللہ چھ مہینے سے پہلے ہی تشکیل دے دیا جائے گا اور پھر اس پر فوری عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔

جہاں تک نیشنل ایکشن پلان کا تعلق ہے اگر دو سال پہلے اور آج کا تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ حالات میں بہت بہتری آئی ہے۔ کہاں سات آٹھ دھماکے روزانہ کے حساب سے اور کہاں آج کا بدرجہ بہتر ماحول۔ جس کا اظہار صرف ہمارے اعداد و شمار ہی نہیں بلکہ غیر ملکی ادارے اور تجزیہ نگار بھی کر رہے ہیں۔ انٹرنل سیکورٹی ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ عمل ہے جس میں کئی ادارے ، ڈیپارٹمنٹس، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی باہمی کوارڈینیشن سے ہی حالات میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ امن مکمل طور پر بحال کر دیا گیا ہے مگر اس بات کا اعتراف نہ کرنا کہ حالات میں بہت بہتری آئی ہے یہ بھی ایک نا انصافی ہوگی۔

متعلقہ عنوان :