سپریم کورٹ نے وفاق اور صو با ئی حکو متو ں سے این جی اوز کے خلاف کارروائی بارے 22 جولائی تک جواب طلب کر لیا ، نیکٹا اور دیگر اداروں کے لئے وضع کردہ بجٹ تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم ،وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات بڑھا دیئے گئے مگر دہشت گردی کے خلاف کچھ نہیں کیا جا رہا ،جسٹس مقبول باقر، دہشت گردی کے حوالے سے کیا اقدامات کئے گئے، این جی اوز کو غیر ملکی فنڈنگ ہو رہی ہے ، نیشنل ایکشن پلا ن بنا کر رکھ دیا گیا اس پر کو ئی عمل کر نے کو تیا ر نہیں ،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریما رکس

ہفتہ 4 جولائی 2015 09:07

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4 جولائی۔2015ء) سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبوں میں کام کرنے والی این جی اوز ، ان کو اندرون ملک اور بیرون ملک سے کی جانے والی مالی امداد ، آڈٹ او ، ان کے خلاف کی گئی کارر وائی بارے 22 جولائی تک جواب طلب کیا ہے ۔ عدالت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نیکٹا اور دیگر اداروں کے لئے وضع کردہ بجٹ تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دیا ہے ۔

اب تک کتنی این جی اوز پر پابندی لگائی گئی ۔ کتنے کے اکاؤنٹس فریز کئے گئے اور کتنے ملزمان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں یہ حکم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعہ کے روز جاری کیا ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاق سمیت صوبائی حکومتوں کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ نیشنل ایکشن پلان بنا کر چپ کر کے بیٹھ گئی اور داعش جیسی تنظیم پر تاحال کوئی پابندی تک نہیں لگائی گئی ۔

(جاری ہے)

مشکوک این جی اوز کی فنڈنگ روکنے سے وہ این جی اوز اپنی موت آپ مر جائیں گی ۔نیشنل ایکشن پلان بنا کر اس پر عمل نہ کر کے قوم کے ساتھ بہت بڑا مذاق کیا گیا ہے ۔ صرف عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا ہے اگر ریاست حالت جنگ میں ہے تو پھر ہمیں تمام تر معاملات سے جنگی بنیادوں پر نمٹنا ہو گا ۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لگتا ہے کہ حکومتوں کو دہشت گردوں سے ہمدردی ہے کہ ابھی تک نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ، آپ کو آپ کے حال پر اور عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں ۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات بڑھا دیئے گئے مگر دہشت گردی کے خلاف کچھ نہیں کیا جا رہا ہے ۔ہارون رشید کیس میں اٹارنی جنرل سلمان بٹ پیش ہوئے تو جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کا کام ہم نہیں کریں گے ۔ پہلے کیس میں کچھ پیش رفت بتائیں ۔ کیا تمام صوبے موجود ہیں ۔ اجلاس کا کیا بنا تھا حکومتوں کو اس معاملے کا مکمل ادراک اور احساس کرنا چاہئے ۔

سرکار نے اس کو لاگو تو کرنا ہے ۔ یہ ایک معاملہ ہے ۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے نے منی چینجز ، ہنڈی کے حوالے کے کے پی کے میں 35 مقدمات درج ہیں ۔ 41 ملزمان گرفتار ہوئے ہیں جسٹس جواد نے کہاکہ یہ بھی کالم بنایا جائے کہ ان افراد کا کن این جی اوز سے تعلق رکھتا ہے آپ کا نیشنل ایکشن پلان کہتا ہے کہ جو بھی دہشت گردی کرتا ہے یا معاونت کرتا ہے اس کے خلاف کارروائی ہو گی ۔

ان این جی اوز کا خالی معاملہ ہنڈی تو نہیں ہو سکتا آپ یہ بتائیں کہ دہشت گردی کے حوالے سے کیا اقدامات کئے گئے ہیں بعض این جی اوز کو غیر ملکی فنڈنگ ہو رہی ہے جبکہ مقامی سطح پر بھی فنڈنگ ہو رہی ہے اس کا بھی تدارک کرنا ہو گا ۔اے جی نے کہا کہ ہم نے تمام تر اقدامات کر رکھے ہیں اگر کوئی مشکوک ہو تو پھر اس کا فرانزک آڈٹ کرایا جاتا ہے ۔ جو قوانین موجود ہیں ان پر عمل نہیں ہو رہا آج 6 مہینے 7 دن گزر گئے مگر اقدامات نہیں کئے گئے ۔

نیشنل ایکشن پلان بننے کے بعد سب حکومتوں کو فوری طور پر حرکت میں آجانا چاہئے تھا اور ان تنظیموں اور این جی اوز کے اکاؤنٹس فریز کر دیئے جاتے جو دہشت گردی کی سرگرمیوں میں معاونت کر رہے ہیں ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنا ہمارا کام نہیں ہے ۔ یہ حکومتوں کا کام ہے جسٹس جواد نے کہا کہ حکومتیں کہہ دیں کہ اس پر عمل نہیں کرا سکتے صرف کاغذی کارروائی کر سکتے ہیں ۔

یہ اللہ طرف سے ہوا ہے کہ ہارون رشید جعلی چیک میں پھنس کر یہاں آگیا ۔ 3 کروڑ روپے ادھر زے ادھر کئے گئے ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ کسی کو پتہ ہی نہیں کہ پیسے کے کس پاس ہیں ۔ اے جی نے کہا کہ سٹیٹ بنک سے کہا تھا کہ آپ کو ان سب معاملات کا پتہ ہو گا سب کچھ آپ کے ذریعے ہوتا ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اور بھی بہت سے کام ہو رہے ہیں عید پر کھالیں بھی اکٹھی کی جائیں گی ۔

این جی اوز پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے ساری حکومتیں غیر سنجیدہ ہیں عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نیشنل ایکشن بنا دیا ہے ۔ انگریزی میں لکھ دیا ہے جس کو عوام الناس سمھج ہی نہیں سکتے ۔ جسٹس باقر نے کہا کہ سوشل میڈیا پر دیکھیں کہ کون لوگ چھائے ہوئے ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ آپ بتائیں کہ سال میں آپ نے کیا کیا ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان بنا کر رکھ دیا گیا ہے اس پر کوئی عمل کرنے کو تیار نہیں ہے ۔

ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں عوام الناس کو بتلا دیں کہ ہم نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کرنا ۔ اے جی نے کہا کہ صوبائی حکومتوں سے کہہ دیا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے ۔جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ کو کچھ ہمدردی ہے اس لئے آپ کچھ پیش کرنا چاہتے ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارے پا معاملہ دھوکے بازی کا ہے ۔ 6 اپریل کو مقدمہ سامنے آیا تھا ۔

جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ باہر سے پسے آتے ہیں اور ان کو روکنے میں تمام تر صوبائی حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اتنی بڑی چیز ملک میں ہو رہی ہے جس میں سب سے زیادہ متاثر کے پی کے ہو رہا ہے مگر انہیں بھی رقم کے آنے کا پتہ نہیں کہ یہاں کہاں سے آ رہے ہیں ۔مانیٹرنگ کا نظام وضع کرنا ہو گا ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ صوبائی حکومتوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ قانون پر سرے سے عمل درآمد ہی نہیں ہو رہا ہے ۔

جسٹس جواد نے کاہ کہ آپ سب ہمیں ہر تاریخ پر کہتے ہیں کہ عمل کر دیں گے ۔ سارے صوبے ہی ایسے بیٹھے ہوئے ہیں جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آپ کو اپنے حال پر اور عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں اگر آپ کارروائی کرتے تو ادھر ادھر سے آنے والی رقم کا بھی پتہ چل جاتا اور جو صحیح اور اصل پیسہ آتا ہے اس کا استعمال بھی بہتر ہو سکتا ۔ جسٹس باقر نے کہا کہ کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی نوٹس موجود ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ کے پی کے میں 24 ضلعے ہیں اور ہر ضلعے میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ ہیں ۔ 4800 ملازمین ہو سکتے ہیں سرکاری تنخواہیں لیں گے ۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد وہ پنشن لیں گے ۔ کیا کسی ایک اونر کو بھی نوٹس ہوا ہے یا کسی کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے ۔ کے پی کے نے بتایا کہ تمام تر صورت حال بتلا دی ہے ۔10 ہزار این جی اوز کام کر رہی ہیں ان پر کے پی کے چیک رکھے ہوئے ہے ۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ کوئی اپنے بنائے گئے قانون پر عمل کرنے کو تیار نہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ قوم کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے ۔ایکشن پلان بنا دیا گیا مگر ایک ٹکے کا کام نہیں کیا گیا ہے۔اے جی نے بتایا کہ نیکٹا کے حوالے سے جو فنڈز رکھے گئے ہیں ان کی تفصیل دے دی گئی ۔ فی الحال اس سال کا ریکارڈ دیا گیا ہے جسٹس جواد نے کہا کہ نیکٹا اور این سی ایز سی کو ملا کر آپ 15 کروڑ روپے فنڈ رکھا گیاہے جسٹس باقر نے کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس کا خرچ بہت زیادہ بڑھا دیا گیا ہے اس حوالے سے خیال نہیں رکھا جا رہا ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ سب تو تنخواہوں میں خرچ ہو جائے گا ۔ جسٹس باقر نے کہاکہ 15 کروڑ روپے انتہائی کم ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کے پی کے اپنی قانونی مینڈیٹ پورا کرے اور کچھ بھی نہیں ہو سکتا تو کم از کم تفصیلات تو موجود ہونی چاہئے ۔ ہمارے پاس مکمل ڈیٹا آ جاتا تو بہتر ہوتا ۔ موجودہ اور پچھلے بجٹ کا موازنہ کرنا ہو گا آپ نے وفاقی حکومت کو بتایا ہے کہ مزید بجٹ کی ضرورت ہے ۔

60 کروڑ روپے تو آپ بھی تنخواہوں پر خرچ کر دیئے ہوں گے ۔سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے کہا کہ ملک میں صورت حال خراب ہے غیر قانونی این جی اوز کام کر رہی ہیں تمام تر تفصیلات کے بعد ان کے اکاؤنٹس سیل کرنا ہوں گے لگ یہی رہ اہے کہ ان کے پاس کیپسٹی نہیں ہے کہ کچھ کر سکیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ داعش تو بین تنظیم ہی نہیں ہے ۔ اے جی نے کہا کہ وہ چیک کر لیتے ہیں ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ داعش کے حوالے سے کہا تو بہت کچھ جاتا ہے کہ اس نے یہ کر دیا ہے وہ کر دیا کوئی اٹھ کر داعش کو 50 کروڑ روپے چندہ دے دے وہ غیر قانونی نہیں ہو گا کیونکہ یہ تنظیم پر پابندی ہی لگائی گئی ۔ یہ سٹیٹ آف وار کے اندر یہ ہو رہا ہے ۔ تو اب ہم کیا کر سکتے ہیں ۔جسٹس باقر نے کہا یہ سنجیدہ ترین معاملہ ہے جس کا ادراک کرنا ہوگا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ حکومتی سنجیدگی کا یہ حال ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرانا چاہتے ہیں ۔

مگر نیکٹا کے لئے ایک دھیلا بھی بجٹ میں نہیں رکھا گیا ۔ اس کے لئے الگ کوئی اکاؤنٹ بھی نہیں رکھا گیا ہے بجٹ کی تفصیلات آنی چاہئے کہ نیکٹا کا مینڈیٹ کیا ہے کیا یہ باقاعدہ ادارہ ہے ۔ڈپٹی اٹارنی جنرل بھٹی نے بتایا کہ وہ کنفرم کر کے ہی بتلا سکتے ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ لاء افسران تک کو پتہ نہیں ہے کہ نیکٹا کس طرح کا ادارہ ہے ۔ا ے جی نے بتایا کہ نیشنل اینٹی ٹیررسٹ اتھارٹی ایکٹ 2013 کے تحت وجود میں آیا تھا ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ 2013 سے پیسہ پڑا ہوا ہے آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ پیسہ کہاں خرچ کرنا ہے ۔ دو ہفتے میں تمام تر اقدامات کر کے بتایا جائے کہ آپ این جی اوز کے حوالے سے کیا کر رہے ہیں ۔ ملزم ہارون الرشید کے حوالے سے بک تک موجود نہیں ہے ۔ آرڈر میں لکھوایا کہ اٹارنی جنرل پیش ہوئے ہیں اور بتایا ہے کہ مختلف ادارے کام کر رہے ہیں ۔ 24 دسمبر 2014 سے پوچھا جا رہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کیا اقدامات کئے گئے ہیں ۔

وزیر اعظم نے یہ اقدام کیا تھا کیا ضروری اقدامات کئے گئے ہیں اور غیر قانونی این جی اوز کے خلاف کیا اقدامات کیا گیا ہے ۔ دہشت گردی کرنے اور دہشت گردوں میں معاونت کرنے والی تنظیموں کے خلاف کیا اقدامات کئے گئے ہیں ۔ نیکٹا کا ادارہ بھی قائم کیا گیا تھا ۔ ایف آئی اے کی طرف سے چند اعداد و شمار دیئے گئے ہیں ۔ منی میجنگ ، ہنڈی سمیت دیگر حوالوں سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں ۔

24 دسمبر 2014 سے اب تک کیا صورت حال رہی ہے۔کتنی این جی اوز کو غیر ملکی امداد مل رہی ہے اور کتنی رقم مقامی سطح پر ان کو دی جا رہی ہے اس بارے تمام تر تفصیلات دی جائیں ۔ پہلی پارلیمنٹ 2015-16 میں نیکٹا کے لئے رقم نہیں رکھی گئی ہے کیا مشترکہ تحقیقات کے لئے غالباً 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔اس پر اے جی کہا کہ وہ چیک کر کے بتلا سکتے ہیں عدالت نے کہا کہ یہ بھی چیک کر بتائیں کیا اضافی بجٹ کا کوئی تقاضا کیا گیا ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ آپ کا ادارہ ہے آپ ہی تفصیل بتلا سکتے ہیں حکومت چلانا ہمارا کام نہیں ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان ہے یا نہیں اس پر کتنا پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے ۔ اگر ہم سٹیٹ آف وار میں ہیں تو ہمیں ان تمام معاملات سے جنگی بنیادوں پر نمٹنا ہو گا ۔وفاق اور صوبے رپورٹس دیں ہم ریاستی جنگ میں ہیں ۔دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات کرنا ہوں گے ۔

ہم ہر بار این جی اوز کے حوالے سے کر رہے ہیں اور یہ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بھی ہے مگر اس حوالے سے ہمارے تحفظات برقرار ہیں ۔ وفاق اور صوبے رجسٹرڈ این جی اوز کی تعداد ، فنڈنگ اور دیگر حوالوں سے رپورٹ فائل کریں یہ تنظیمیں تقریباً 30 ہزار کے قریب ہیں ۔ان کی رقم کا ذریعہ کیا ہے کہ وہ ملازمین کو تنخواہوں کے ساتھ ساتھ دیگر کام سرانجام دے رہے ہیں ۔

حکومتوں کو سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹس کو فعال کرنا ہو گا جو بیرون ملک سے این جی اوز کو دی گئی فنڈنگ روک سکیں اور اس کا کوئی حساب کر سکیں کیس کی سماعت عیدالفطر کے بعد کریں گے ۔ آپ واضح کردیں کہ آپ نے کچھ نہیں کرنا اگر امداد رک گئی تو این جی اوز خود ہی ختم ہو جائیں گی اگر ان کے خلاف کارروئای میں کوئی مجبوری آڑے آ رہی ہے تو وہ بھی بتلایا جائے کیس کی مزید سماعت 22 جولائی کو ہو گی ۔

متعلقہ عنوان :