حکومت کا بجلی صارفین سے گردشی قرضوں کی وصولی کا فیصلہ، حکومت نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا تھا کہ صارفین سے 145 ارب روپے کی وصولی کو یقینی بناکر گردشی قرضوں کو ختم کرے گی

اتوار 28 جون 2015 08:05

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔28 جون۔2015ء) بین الاقوامی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست صارفین کو فائدہ پہنچانے کے بجائے حکومت اور ریگولیٹرز نے فیصلہ کیا ہے کہ گیس کے تمام بقایاجات کی وصولی اور بجلی کے گردشی قرضوں کا حساب بیباق کرلیا جائے۔ میڈیا رپورٹس کے مطا بق جمعہ کے روز نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کے نرخوں پر فیول پرائس میں2.62 روپے فی یونٹ کمی کی منظوری تھی، لیکن گیس کے انفراسٹرکچر کے ترقیاتی محصول کی وصولی کے لیے 76 پیسے فی یونٹ روکنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس کے نتیجے میں نیپرا کو اس ٹیرف میں اپریل کے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے1.86 فی یونٹ کمی کی اجازت دی گئی۔یہ کمی ماہانہ 300 یونٹس سے کم بجلی کا استعمال کرنے والے صارفین کو مہیا نہیں کی جائے گی۔

(جاری ہے)

کمی کے ایک حالیہ فیصلے کے تحت حکومت نے محسوس کیا کہ ان صارفین کو پہلے ہی رعایتی داموں بجلی فراہمی کی جارہی ہے۔حکومت نے انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ یہ وعدہ کیا تھا کہ گزرے مالی سال کے دوران جی آئی ڈی کے حساب میں صارفین سے 145 ارب روپے کی وصولی کو یقینی بنائے گی، اور تین سالوں میں بجلی کے ٹیرف میں ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے بجلی کے شعبے کے گردشی قرضوں کو ختم کرے گی۔

سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے نیپرا سے درخواست کی تھی کہ بجلی کے نرخوں میں اپریل کے لیے فیول ایڈجسٹمنٹ کے حساب میں 2.62 روپے فی یونٹ کی کمی کی جائے۔نیپرا نے غور کیا کہ ایندھن کی قیمتوں میں کمی سے بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی مدد کرے گی اور یہ صارفین کے ٹیرف میں جی آئی ڈی سی ایڈجسٹمنٹ کی وصولی کے لیے مناسب وقت ہے۔چنانچہ اپریل، مئی اور جون کے بلوں میں 76 پیسہ فی یونٹ جی آئی ڈی سی کے نفاذ سے 11 ارب روپے وصول کیے جائیں گے۔

اگست کے مہینے کے بلوں صارفین کو بقایا1.86 روپے فی یونٹ کا ریلیف دیا جائے گا۔ یہ کمی کے الیکٹرک کے صارفین پر لاگو نہیں ہوگی۔سی پی پی اے نے ایک عوامی سماعت کے دوران بتایا کہ اپریل کے مہینے میں 45.2 ارب روپے کی لاگت پر 7.17 ارب یونٹس کی بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے خریدی گئی۔ ٹرانسمیشن کا نقصان 2.19 پیسے فی یونٹ پر برقرار رہا۔یہ ریفرنس ایندھن کی قیمت کے حوالے سے تھا، جو 8.92 روپے فی یونٹ اپریل میں صارفین سے وصول کیا گیا تھا، جبکہ ایندھن کی کم قیمتوں کی وجہ سے اس کی اصل قیمت 6.30 فی یونٹ تھی۔

بجلی کی پیداوار میں ہائیڈروپاور جنریشن کا حصہ 20.06 فیصد تھا، فرنس آئل کا 39.32 فیصد، گیس کا 26.7 فیصد، کوئلے کا 0.18 فیصد، ہائی اسپیڈ ڈیزل کا 5.06 فیصد اور نیوکلیئر کا 5.88 فیصد حصہ تھا۔فرنس آئل کے ذریعے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت 9.86 روپے فی یونٹس، ہائی اسپیڈ ڈیزل سے 13.85 روپے فی یونٹ، قدرتی گیس سے 5.18 روپے فی یونٹ، کوئلے سے 4.49 روپے فی یونٹ جبکہ نیوکلیئر توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت رہی۔

ہائیڈرو پاور جنریشن میں کسی ایندھن کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ایک متعلقہ فیصلے میں نیپرا نے بجلی کی کمپنیوں کو جی آئی ڈی سی کی مد میں11 ارب روپے کے بقایاجات کا بوجھ صارفین پر ڈالنے کی اجازت دی تھی۔یاد رہے کہ جی آئی ڈی سی بل 2015ء کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد سپریم کورٹ نے اس کی اجازت دی تھی۔نیپرا کو یقین تھا کہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے اثرات کو مستقبل کی ایندھن کی قیمتوں میں اس طرح ایڈجسٹ کیا جائے گا کہ صارفین کو اس کا اضافی بوجھ محسوس نہیں ہوگا۔

صارفین سے 11 ارب روپے کے بقایاجات کی وصولی کے لیے گیس سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ کے ٹیرف 4.3 روپے فی یونٹ سے بڑھ کر 4.5 روپے فی یونٹ ہوجائیں گے۔ایران گیس پائپ لائن اور ایل این جی کی درآمدات جیسے گیس کی درآمدات کے منصوبوں کے لیے فنڈز اکھٹا کرنے کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت نے جی آئی ڈی سی کے محصول کا نفاذ کیا تھا۔اس حکومت نے 94 ارب روپے اکھٹا کیے، لیکن یہ رقم ان منصوبوں کے لیے استعمال نہیں کی گئی، اور سپریم کورٹ نے بھی ٹیکنیکل بنیادوں پر اس محصول کو رد کردیا۔موجودہ حکومت جی آئی ڈی سی بل 2015ء کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے میں کامیاب رہی جبکہ 94 ارب روپے کی اکھٹی کی گئی رقم اور گیس صارفین سے بقایاجات کی وصولی کو بھی قانونی حیثیت دے دی۔

متعلقہ عنوان :